پنجاب میں ’بجلی چوروں‘ کے خلاف 45 ہزار سے زائد مقدمات درج

پنجاب پولیس ترجمان کے مطابق رواں برس اب تک بجلی چوری کے 28,126 مقدمات کے چالان مکمل کیے گئے، جبکہ 1,977 ملزمان کو سزائیں اور جرمانے کیے گئے ہیں۔

لیسکو اہلکار 13 جنوری 2011 کو لاہور میں ہائی وولٹیج پاور لائنوں پر کام کر رہے ہیں (تصویر عارف علی / اے ایف پی)

پنجاب پولیس کے مطابق رواں برس اب تک لاہور سمیت صوبہ بھر میں ’بجلی چوروں‘ کے خلاف 45,928 مقدمات درج کیے ہیں، جبکہ بجلی چوری میں ملوث 30,851 ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔

پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق بجلی چوری کے 28,126 مقدمات کے چالان مکمل کیے گئے، جبکہ 1,977 ملزمان کو سزائیں اور جرمانے کیے گئے ہیں۔

صوبائی دارالحکومت لاہور کی بات کریں تو ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق بجلی چوری کے 11,523 مقدمات درج ہوئے، جبکہ 14,046 بجلی چور گرفتار کیے گئے۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے بجلی چوروں کے خلاف مہم کے آغاز سے اب تک 2 لاکھ 13 ہزار 465 مقدمات درج، ایک لاکھ 91 ہزار سے زائد ملزمان گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے ملزمان کے خلاف ترجیحی کارروائیاں کی جائیں۔‘

بجلی چوری کن طریقوں سے ہوتی ہے؟

لیسکو کے سینئر اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا: ’بجلی چوری کرنا پوری ایک سائنس ہے اور یہ مختلف طریقوں سے ہوتی ہے، اور اس میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا طریقہ کنڈا ڈال کر براہِ راست سپلائی لینا ہے۔‘

مذکورہ افسر کے مطابق دیہاتی علاقوں میں یہ رجحان زیادہ ہے۔ شہروں کے اندر کنڈا سسٹم کم ہے، یہاں ٹیکنیکل طریقوں سے بجلی چوری ہوتی ہے جس میں میٹر کی ریورسنگ ہے یا بوگس میٹر لگا کر بجلی چوری کی جاتی ہے، یعنی ایسی چوری جو فوری نہ پکڑی جائے بلکہ جب ہماری ٹیم تحقیق کرے تو وہ چوری سامنے آئے۔

مذکورہ افسر نے یہ بھی بتایا کہ بجلی گھریلو ہو یا کمرشل، میٹر ایک ہی طرح کا لگتا ہے، اس لیے ان میں چوری بھی ایک ہی طرح کی ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جب بجلی چوری پکڑی جاتی ہے تو صارف کے خلاف ایف آئی آر بھی ہوتی ہے، جرمانہ بھی اور ان کی بجلی کی سپلائی بھی منقطع کی جاتی ہے۔

جب ہم نے مذکورہ افسر سے پوچھا کہ ’بجلی چوری کرنے والوں کے ساتھ اہلکاروں کی کوئی ڈیل بھی ہوتی ہے؟‘ تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا: ’یہ تو ہر جگہ ہوتا ہے، آپ کیسے مانیٹر کریں گے، کوئی کیمرے تو لگے نہیں ہوئے۔ جیسے اگر کوئی ٹیم کسی دور دراز گاؤں میں گئی ہے تو یہ اس ٹیم کا دین ایمان ہے کہ وہ واپس آ کر ساری چوریاں رپورٹ کر دے یا پھر وہ شاید یہ کریں کہ چوریاں پکڑیں تو زیادہ لیکن رپورٹ کم کر دیں۔ یہ تھوڑا بہت اوپر نیچے ہوتا ہے اور اسے بھی ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف قانون میں کیا سختیاں ہیں؟

اس حوالے سے ایڈوکیٹ احمر مجید کا کہنا ہے: ’قوانین موجود ہیں، زیادہ تر انفرادی ایف آئی آر ہوتی ہے جبکہ اس قانون میں ترامیم بھی کی گئی ہیں، جس کے تحت اب 2023 کے بعد سے بجلی چوری کے واقعات میں پولیس خود موقعے پر جا کر چوری کرنے والے کو گرفتار بھی کر لیتی ہے اور مقدمہ بھی درج کر لیتی ہے۔‘

ایڈوکیٹ احمر نے مزید کہا: ’وقت کے ساتھ ساتھ اس قانون میں سختی کی گئی ہے، یعنی اگر کوئی بجلی چوری کرنے والا گرفتار ہو جائے تو ان کی ضمانت جلدی نہیں ہوتی اور ضمانت تب ہی ہوتی ہے جب وہ انہیں واپڈا کی جانب سے موصول ہونے والا بجلی کا بل ادا کریں گے۔‘

احمر کے خیال میں واپڈا والے بھی تھوڑی زیادتی کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی میکانزم نہیں ہے جو یہ بتا سکے کہ بجلی کب سے چوری ہو رہی ہے۔ ’اگر کسی نے اپنے میٹر کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ کی ہوئی ہے تو وہ ان کو لمبا چوڑا بل ڈال دیں گے یا رشوت طلب کرنے کے معاملات بھی ہوتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس میں قید تو کم ہے لیکن جرمانہ بہت زیادہ ہے اور بل ادا کرنا لازمی ہوتا ہے، اس میں چھوٹ ملنا مشکل ہوتا ہے۔

لیسکو کے ایک اور سینئر اہلکار نے بتایا: ’زیادہ تر بجلی چوری پر الیکٹرسٹی ایکٹ کی دفعہ 462-آئی لگتی ہے۔ اس دفعہ کے تحت جب ہم بجلی چور پکڑ لیتے ہیں تو اس میں ان کا میٹر، تار وغیرہ قبضے میں لے لیا جاتا ہے اور ایک پورا ڈاکیومنٹ بنا کر پولیس کو دے دیتے ہیں جو ایف آئی آر درج کر کے آگے اس کا چالان وغیرہ پیش کرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس میں پہلا جرمانہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اس کی چوری شدہ بجلی کا لوڈ اسسمنٹ کرتے ہیں، اور جتنا وہ بنتا ہے وہ اس سے جرمانے کے طور پر وصول کیا جاتا ہے، ہم نے بجلی چوری کے حوالے سے قید کی سزا ہوتے دیکھی تو نہیں، شاید کچھ کیسز میں ہو بھی جاتی ہو۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ڈومیسٹک اور کمرشل میں بھی یہی طریقہ کار استعمال ہوتا ہے، صرف ٹیرف چارجز کمرشل میں زیادہ ہو جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ آج کل بجلی چوری پکڑنے کے لیے لیسکو کے افسران، رینجرز اور پولیس کی ایک ٹیم جاتی ہے جو چھاپے مارتی ہے اور بجلی چوری کو پکڑتی ہے۔

قوانین کیا کہتے ہیں؟

پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی دفعہ 462-I بجلی کی چوری اور اس سے متعلقہ جرائم کو حل کرتی ہے۔ اس میں جان بوجھ کر تخریب کاری، استعمال یا غیر قانونی طور پر بجلی استعمال کرنے، یا بجلی کی غیر مجاز تقسیم پر دو سال تک قید، 2.5 ملین روپے تک جرمانہ یا دونوں کی سزا دی گئی ہے۔

وزارت اطلاعات و نشریات کے مطابق، اس سیکشن میں 2016 اور مزید 2023 میں ترمیم کی گئی تاکہ سزاؤں کو بڑھایا جا سکے اور جرم کو قابلِ سماعت بنایا جا سکے۔

پاکستان پینل کوڈ ستمبر 2023 کی ترامیم کے سیکشن 462-جے کے مطابق گھریلو صارفین کی طرف سے بجلی کے میٹر میں مداخلت، غلط استعمال یا چھیڑ چھاڑ، برقی میٹر کو کسی بھی برقی لائن سے جوڑنا، جس کے ذریعے بجلی لائسنس یافتہ کی طرف سے فراہم کی جاتی ہے، یا کسی بھی الیکٹرک میٹر کو کسی بھی الیکٹرک لائن یا دیگر سے غیر مجاز طور پر دوبارہ جوڑنا شامل ہے۔

سیکشن کے مطابق ریورسنگ ٹرانسفارمر، لوپ کنکشن یا کوئی اور ڈیوائس یا طریقہ، Contrivance یا مصنوعی ذرائع جو درست یا مناسب میں مداخلت کرتے ہیں، وہ بھی شامل ہیں۔

کمرشل میٹر میں مداخلت کے حوالے سے سیکشن 462-کے کے مطابق اگر یہی سب کچھ کمرشل میٹر کے ساتھ ہو رہا ہو تو قانون کے مطابق ایسا کرنے والے کو تین سال قید، 60 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان