سینیٹ کمیٹی میں بجلی چوری میں ملوث افسران کو ہٹانے کی سفارش

چیئرمین کمیٹی سینیٹر سیف اللہ ابڑو کا کہنا تھا کہ ’ملک میں سول نافرمانی جیسی صورت حال ہے، لوگ بل جلا رہے ہیں لیکن چیئرمین نیپرا اور سیکریٹری پاور کا رویہ غیر سنجیدہ ہے۔‘

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں قائمہ کمیٹی برائے توانائی نے پاور ڈویژن کو لائف لائن صارفین کی حد دو سو یونٹ تک کرنے کی سفارش کی ہے۔

قائمہ کمیٹی برائے توانائی نے منگل کو خود مختار پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) سے اوور انوائسنگ کے معاملے پر پاور ڈویژن سے تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں۔

دوسری جانب پاور ڈویژن حکام کا کہنا ہے کہ بجلی کے بلوں میں ریلیف کے حوالے سے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ طے شدہ اہداف سے منحرف نہیں ہو سکتے۔

چیئرمین سیف اللہ ابڑو نے حالیہ دنوں بجلی کے بلوں میں اضافے کے معاملے پر قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں چیئرمین نیپرا، کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو (سی ای او) اور سیکرٹری وزارت توانائی کی عدم موجودگی پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر سیف اللہ ابڑو کا کہنا تھا کہ ’ملک میں سول نافرمانی جیسی صورت حال ہے، لوگ بل جلا رہے ہیں لیکن چیئرمین نیپرا اور سیکریٹری پاور کا رویہ غیر سنجیدہ ہے۔‘

اس موقع پر کے الیکٹرک حکام نے کہا کہ صوبہ سندھ میں امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے بریفنگ پلان کی گئی تھی جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ’اگر سی ای او آنا چاہتے ہیں تو انہیں بلائیں، سی ای او صاحب کب آنا چاہتے ہیں؟ ورنہ ہمارے پاس وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا اختیار ہے۔‘

سینیٹر بہرہ مند تنگی نے اجلاس کے دوران کہا کہ انہوں نے گذشتہ اجلاس میں بجلی چوری اور ریکوری سے متعلق پوچھا تھا، جس پر ایڈیشنل سیکرٹری نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ انسپیکٹر جنرل پنجاب نے بتایا ہے کہ ڈسکوز کی طرف سے 78 ہزار ایف آئی آر کی درخواست آئی ہے، پورے سسٹم میں 44943 میگا واٹ کی انسٹالڈ کپیسٹی ہے جبکہ ڈی ریٹڈڈ کپیسٹی 37991 میگا واٹ ہے، اور ہائیڈرو کی قیمت ہمیں سال 2023 میں پانچ روپے 93 پیسے میں پڑی۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے وزارت توانائی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آئی پی پیز کو کتنی ادائیگی کی گئی، ہر مہینے آپ ادائیگی کرتے ہیں اور آپ کے پاس تفصیل نہیں ہے؟ آپ کی پبلک پاور سیکٹر سے دشمنی ہے۔ آپ آئی پی پیز آپ کے چہیتے ہیں۔ اگر ان کے پاس 10 سال کی تفصیل نہیں تو انہوں نے ادائیگی کیسے کی؟‘

انہوں نے وزارت توانائی حکام کو 44 ہزار 943 میگا واٹ انسٹالڈ کپیسٹی سے متعلق تفصیل دینے کا کہا۔ بریفنگ شروع ہونے کے کچھ ہی دیر بعد چیئرمین سیف اللہ ابڑو نے بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا سیکرٹری یا وزیر اس معاملے پر بریفنگ دینے کے مجاز ہیں، کوئی دوسرا افسر نہیں۔

پاور سیکٹر کے اندر چوری میں ملوث افسران کو فوری ہٹانے کی سفارش

حکام نے بریفنگ میں کہا کہ یہ این ٹی ڈی سی کے اعداد و شمار ہیں اس میں کے الیکٹرک کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔ کوئی بھی ملک ہو، انسٹالڈ کپیسٹی ڈبل ہوتی ہے۔ کسی بھی پلانٹ کا استعمال 100 فیصد نہیں ہو سکتا۔ پبلک سیکٹر کی انسٹالڈ کپیسٹی 17383 میگا واٹ ہے جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کی انسٹالڈ کپیسٹی 27 ہزار 560 میگا واٹ ہے۔‘

حکام نے دعویٰ کیا کہ ’آئی پی پیز کی 34 کمپنیوں کے ساتھ نظرثانی معاہدہ ہو چکا ہے جس کے تحت 72 ارب روپے کا فائدہ ہوگا، جبکہ دیگر کمپنیوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ حالیہ ٹیرف اضافے میں 60 فیصد گھریلو صارفین پر بوجھ نہیں ڈالا گیا۔‘

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ان کا موقف ہے جتنی بجلی آئی پی پیز پیدا کرے گا اتنے ہی پیسے لے گا۔ جس کے بعد کمیٹی نے بلنگ سلیب پر نظرثانی کرنے کی سفارش کر دی اور بجلی چوری اور کنڈا سسٹم کے خاتمے کے لیے پالیسی بنانے کی بھی ہدایت کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اجلاس میں ڈسکوز کے نقصانات اور ریکوری سے متعلق بریفنگ میں بتایا گیا کہ پیسکو میں 37.40 فیصد نقصانات ہیں۔ چیئرمین نے سوال کیا کہ 396 ارب ایک سال کا نقصان ہے، ڈسکوز کا 10 سال کا نقصان کتنا ہے؟

جس پر حکام نے بتایا کہ مالی سال کے اختتام پر گردشی قرضہ 2310 ارب روپے ہے جبکہ کے الیکٹرک نے سی پی پی اے کو ادائیگی کرنی ہے، کے الیکٹرک سے 300 ارب روپے ابھی بھی قابل وصول ہیں۔

کے الیکٹرک حکام نے بتایا کہ ’206 ارب سی پی پی اے کو ہم نے دینے ہیں جبکہ 224 ارب روپے ہمیں ملنا ہیں۔‘

بعد ازاں کمیٹی نے بجلی صارفین کو ریلیف دینے کے لیے جامع اصلاحات بنانے کی سفارش کر دی ہے۔

پاکستان میں مہنگی بجلی کے باعث بلوں میں اضافے کے خلاف ملک کے تقریباً تمام ہی شہروں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے گذشتہ دنوں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کابینہ اجلاس بھی طلب کیا تھا۔

اس کے علاوہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر کو طلب کرکے بریفنگ مانگی تھی جنہوں نے کمیٹی کو بتایا تھا کہ مالی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو سبسڈی نہیں دی جا سکتی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان