پاکستان کے مالی سال 2025-26 کا بجٹ 10 جون کو پیش کیا جائے گا اور موجودہ حکومت اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب قومی اسمبلی میں اپنا دوسرا بجٹ پیش کریں گے جس کے لیے تیاریاں جاری ہیں۔
اب تک سامنے آنے والی تجاویز کے مطابق بجٹ میں بعض شعبوں کو ریلیف جبکہ کئی منصوبوں میں کٹوتی کا امکان ہے۔
ٹیکس تجاویز
وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق بجٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کے لیے پیٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں پر پانچ سالہ لیوی عائد کرنے کی تجویز شامل ہے۔
اسی طرح، لیپ ٹاپ اور سمارٹ فونز کی بیٹری اور چارجرز کی مقامی تیاری کے لیے ٹیکس مراعات دی جا سکتی ہیں۔
ایف بی آر ذرائع کے مطابق تنخواہ دار طبقے کو مہنگائی کے تناسب سے ریلیف دیا جائے گا، جبکہ نان فائلرز کے خلاف کارروائی سخت کرنے کی تجاویز شامل کی گئی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق نقد لین دین کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات زیر غور ہیں، جن میں پیٹرول پمپس سے نقد ادائیگی پر فی لیٹر دو سے تین روپے اضافی قیمت، اور مینوفیکچررز و درآمد کنندگان کی نقد فروخت پر دو فیصد اضافی ٹیکس شامل ہیں۔
اس کے برعکس کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی پر سہولت دی جائے گی۔
تنخواہیں، الاؤنسز اور احتجاج کی دھمکی
سرکاری ملازمین نے حکومت سے تنخواہوں اور الاؤنسز میں نمایاں اضافے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کم از کم تنخواہ 50 ہزار روپے مقرر کی جائے۔
ملازمین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ 10 جون کو پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کریں گے۔
ترقیاتی بجٹ میں ممکنہ کمی
پلاننگ کمیشن کے مطابق مالی سال 2025-26 کے لیے مجموعی ترقیاتی بجٹ کا حجم 3800 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے، جس میں سے 2800 ارب روپے صوبوں اور 1000 ارب روپے وفاق کے لیے مختص ہوں گے۔
صوبہ وار ترقیاتی بجٹ کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
پنجاب: 1190 ارب روپے
سندھ: 887 ارب روپے
خیبر پختونخوا: 440 ارب روپے
بلوچستان: 280 ارب روپے
تاہم، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) کے صدر عاطف اکرام شیخ نے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’1500 ارب روپے کا وفاقی ترقیاتی بجٹ متوقع تھا، جو کم کر کے 1000 ارب کر دیا گیا ہے۔‘
آئی ٹی انڈسٹری کے مطالبات
پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن (پاشا) کے چیئرمین سجاد مصطفی سید نے وفاقی بجٹ میں آئی ٹی انڈسٹری کے لیے ریلیف پیکیج کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ:
*کوئی نیا ٹیکس نہ لگایا جائے۔
*فکسڈ ٹیکس رجیم 2025 سے 2035 تک کا واضح اعلان کیا جائے۔
*PSEB سے رجسٹرڈ کمپنیوں پر 0.25 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس برقرار رکھا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
*آئی ٹی ملازمین اور ریموٹ ورکرز پر یکساں انکم ٹیکس لاگو کیا جائے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ’اگر پالیسیوں میں تسلسل نہ رہا تو غیر ملکی سرمایہ کاری رک سکتی ہے۔‘
آئی ایم ایف کے ساتھ مشاورت اور چیلنجز
معاشی امور کے صحافی شکیل احمد کے مطابق ’آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔ وہ سبسڈی صرف غریب طبقے تک محدود رکھنے، پنشن بل میں کمی، اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی پر زور دے رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ’آئی ایم ایف نے 14,300 ارب روپے ٹیکس کا ہدف تجویز کیا ہے، جس میں نان فائلرز کے خلاف سخت اقدامات شامل ہوں گے، جبکہ زرعی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔‘
گذشتہ برس کے بجٹ سے کیا فرق ہو گا؟
معاشی امور کے سینیئر صحافی شہباز رانا کے مطابق ’گذشتہ برس کا بجٹ ایک بحران کا بجٹ تھا، جبکہ اس مرتبہ بحران کی شدت کم ضرور ہے لیکن معیشت اب بھی معمول پر نہیں آئی۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس بار تنخواہ دار طبقے کو ریلیف ملنے کا امکان ہے کیونکہ پچھلے بجٹ میں اس طبقے پر خاصا بوجھ ڈالا گیا تھا۔
شکیل احمد کے مطابق تین بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں: دفاعی بجٹ میں اضافہ، جو 2122 ارب سے بڑھ کر 2500 ارب ہو سکتا ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں کمی اور سود کی ادائیگی میں کمی، جو گذشتہ برس 10 ہزار ارب تھی اور اب 8700 ارب رہنے کا امکان ہے۔
تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ ’ریلیف دینا اس لیے مشکل ہے کہ ٹیکس اہداف پورے نہیں ہو پائے، اور نئے اہداف کے حصول کے لیے مزید اقدامات ناگزیر ہیں۔‘