لاہور کی ٹولنٹن مارکیٹ اپنے پولٹری بزنس اور پالتو جانوروں کی خریداری کے لیے مشہور تھی، لیکن وہاں کا ماحول حفظانِ صحت کے مطابق نہیں تھا، لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) نے گذشتہ چھ ماہ کے اندر اس مارکیٹ کی از سرِ نو تعمیر کی ہے۔
ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے طاہر فاروق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 19 کروڑ کی لاگت سے اس ساری مارکیٹ کی تعمیرِ نو کی گئی ہے۔ تین ماڈل دکانیں بنائی گئی ہیں جبکہ باقی دکانوں کے لیے دکانداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ انہیں ماڈل دکانوں کی طرز پر ڈھال لیں۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’ٹولنٹن مارکیٹ لاہور کی ایک تاریخی مارکیٹ تھی۔ پہلے یہ مال روڈ پر ہوا کرتی تھی لیکن 1992 میں اس مارکیٹ کو جیل روڈ منتقل کر دیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ لاہور کی سب سے گندی مارکیٹ بن گئی۔‘
طاہر فاروق کہتے ہیں کہ ’وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر ہم نے اس منصوبے پر کام شروع کیا اور اس میں سینیئر وزیر مریم اورنگزیب نے خاص دلچسپی دکھائی، جس کے بعد پورا ایک منصوبہ بنایا گیا کہ ہم اس پوری مارکیٹ کو کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’مارکیٹ کی اصلاح کا 90 فیصد کام کر لیا گیا ہے، جس میں تمام شعبہ جات نے کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ ضلعی انتظامیہ، فوڈ اتھارٹی، سولڈ ویسٹ کے شعبوں نے مل کر اس منصوبے کو کامیاب کیا ہے۔ اب جو اس کا پائیدار ماڈل آ رہا ہے، اس میں بھی ہم تمام سٹیک ہولڈرز اور یہاں کی مقامی ایسوسی ایشنز کے ساتھ مل کر کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ایک ایسی مارکیٹ ہو، جس کی نقل نہ صرف پورے پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں کی جائے۔‘
طاہر فاروق کا مزید کہنا تھا: ’مارکیٹ کی حالت کو برقرار رکھنے کے لیے ہم چاہ رہے ہیں کہ کوئی ضابطے بنائے جائیں، اس کی مینجمنٹ کمیٹی ہو، اس میں تمام سٹیک ہولڈرز، دکاندار، یہاں کی تنظیمیں، فوڈ اتھارٹی، مقامی انتظامیہ اور ایل ڈی اے مل کر اس کے لیے کچھ ایس او پیز طے کریں کہ یہاں جو بھی کاروبار ہوگا، وہ مخصوص ضابطوں کے اندر رہ کر ہوگا۔‘
سینیئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے بھی پیر کو اس مارکیٹ کا دورہ کیا۔ اس موقعے پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’اس مارکیٹ میں صرف ہول سیل والے آیا کرتے تھے، وہ بھی مجبوری کے تحت کیونکہ یہاں اس قدر بدبو تھی کہ عام لوگ یہاں آ ہی نہیں پاتے تھے۔ یہاں گوشت فروخت ہوتا ہے لیکن اس مارکیٹ کا صفائی ستھرائی کا کوئی معیار نہیں تھا۔ اب ہم نے اسے بین الاقوامی معیار کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے کہ جب بھی یہاں کوئی گوشت فروخت ہوتا ہے یا مرغیاں آتی ہیں تو اس کا ایس او پی کیا ہوگا، اسے ذبح کرنے اور باقیات کو تلف کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا؟‘
انہوں نے بتایا کہ مارکیٹ کے پیچھے ایک نالہ تھا، جس میں مرغیوں کی باقیات کو تلف کیا جاتا تھا، لیکن اب اس نالے کو بھی مکمل طور پر ڈھانپ دیا گیا ہے اور ذبح خانہ وہاں منتقل کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مارکیٹ میں پالتو جانوروں کی دکانیں بھی ہیں، جنہیں یہاں سے منتقل کرنا پڑے گا کیونکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق وائلڈ لائف کو کھانے والے گوشت کے ساتھ نہیں رکھ سکتے کیونکہ ان کی بیماریوں کا فرق ہوتا ہے۔
مریم اورنگزیب کے مطابق اس مارکیٹ کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا جا رہا ہے۔ ’اب یہ یہاں کے دکانداروں کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ یہاں کی صفائی کو کیسے برقرار رکھتے ہیں۔ ہم نے البتہ یہاں واسا اور ایل ڈبلیو ایم سی کا دفتر یہاں منتقل کر دیا ہے، جو ہر وقت یہاں موجود ہوگا اور قواعد و ضوابط کے تحت اس کی حالت کو برقرار رکھنے پر عمل کروائے گا۔‘
ٹولنٹن مارکیٹ کے اندر کی ساری گلیوں کو پکا کر دیا گیا ہے، جبکہ اس کے باہر پارکنگ کا بھی مستقل انتظام کیا گیا ہے۔
اس مارکیٹ کے ایک دکاندار طلحہٰ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ حکومت کو ہمارا خیال آئے گا۔ یہاں اتنا گند تھا کہ یہاں کوئی اچھا گاہک آتا ہی نہیں تھا۔ کوئی اچھی گاڑی میں آیا بھی تو وہ مارکیٹ کے اندر نہیں آتا تھا کیونکہ یہاں شدید بدبو ہوتی تھی، اس لیے وہ ڈرائیور کو بھیج کر چیز منگوا لیتے تھے اور باہر باہر سے ہی چلے جاتے تھے۔ گاہک دکانوں میں آنا پسند ہی نہیں کرتے تھے۔‘
بقول طلحہٰ: ’اب مارکیٹ کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ اندر باہر ہر جگہ سے اسے نئے سرے سے بنا دیا گیا ہے۔ ہم نے بھی حکومت سے تعاون کیا، ہمیں ان کی بات سمجھ آئی۔ ہم نے بھی اب اپنے جانوروں کے پنجروں کو سمیٹ کر رکھا ہوا ہے اور صفائی کا خیال رکھا ہوا ہے۔۔۔ حکومت اور ہم مل کر تعاون کرتے رہے تو یہاں صفائی اسی طرح برقرار رہے گی۔‘
ٹولنٹن ٹریڈرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے چیئرمین محمد طارق جاوید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’وزیراعلیٰ پنجاب کے تعاون سے یہ مارکیٹ اب اتنی خوبصورت ہو گئی ہے کہ ہم اسے مرغی کا کاروبار کرنے والی ایشیا کی خوبصورت ترین مارکیٹ کہہ سکتے ہیں۔ اس مارکیٹ میں سب دکانوں کے اندر سفید ٹائلیں لگا دی گئی ہیں، ایک جیسی لائٹیں لگا دی گئی ہیں، جبکہ فرش پر ماربل لگا دیا گیا ہے۔ مرغی کی دکانیں جو پہلے گندی نظر آتی تھیں، خون والے ڈرم دکھائی دیتے تھے، لیکن اب وہ دکھائی نہیں دیں گے۔ اس مارکیٹ میں اب مرغی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق فروخت ہو گی اور مارکیٹ سے سستی بھی ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا: ’دکانوں کے باہر تعمیر نو کا کام تو ایل ڈی اے نے پنجاب حکومت کے فنڈ سے کیا، لیکن دکانوں کے اندر جو کام ہوا وہ دکانداروں نے اپنی جیب سے پیسے لگا کر کروایا، جس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔‘
سعدیہ بطور گاہک ٹولنٹن مارکیٹ میں ہم سے ملیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک مرتبہ پہلے بھی یہاں آئی تھیں، لیکن یہاں کی گندگی دیکھ کر وہ واپس چلی گئیں، لیکن اب انہیں یہاں آنا اچھا لگا اور انہیں محسوس ہوا کہ یہاں خواتین بھی آرام سے آ کر خریدوفروخت کر سکتی ہیں۔