لاہور میں چار لاکھ شہریوں کے لیے بلدیہ کا ایک پبلک ٹوائلٹ

لاہور ہائی کورٹ میں گذشتہ سال مئی میں عوامی بیت الخلاؤں کی ناگفتہ بہہ حالت سے متعلق دائر کی گئی درخواست کی سماعت ہر ہفتے ہونا طے پائی ہے۔

عوامی مقامات پر پبلک ٹوائلٹ کی فراہمی ایک بنیادی انسانی ضرورت ہے، لیکن ملک کے دوسرے شہروں کی طرح لاہور میں بھی اس سہولت کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔ 

عام علاقوں کی تو کیا بات کی جائے، لاہور کے پوش بازار لبرٹی مارکیٹ میں بنے عوامی بیت الخلا ایک تو ضرورت سے کم ہیں، اور جو ہیں بھی، ان میں صفائی اور سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

محمد زبیر سجاد، جو لبرٹی مارکیٹ کے عوامی بیت الخلا کے کیئر ٹیکر ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صارفین ٹوائلٹس میں سہولتوں کی امید رکھتے ہیں، جو یہاں میسر نہیں ہیں۔

اکثر ٹوائلٹس میں ہاتھ دھونے کے لیے صابن میسر نہیں، جب کہ بعض میں کموڈ بھی ٹوٹے ہوئے ہیں۔

طالبہ ضحیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بازار میں ہمیں بہت مشکل ہوتی ہے۔ وہاں کوئی پبلک ٹوائلٹس نہیں ہیں۔ موٹر ویز کی طرح لوگوں سے پیسے لے لیں اور صاف واش رومز دستیاب کریں۔‘

انہوں نے گلہ کیا کہ لاہور شہر میں جو ٹوائلٹس موجود ہیں ان کی حالت بہت زیادہ خراب ہے۔ ’وہاں آپ کھڑے نہیں ہو سکتے۔ اتنی زیادہ بدبو ہوتی ہے۔‘

صوبہ پنجاب میں عوامی مقامات پر صاف اور معیاری بیت الخلا کی عدم دستیابی سے متعلق لاہور ہائی کورٹ میں گذشتہ سال درخواست دائر کی گئی تھی، جس کی اب سماعت شروع ہوئی ہے۔

درخواست دائر کرنے والے وکیل اظہر صدیق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بیت الخلا کا میسر نہ ہونا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہمیں بہت حیرانی ہوئی کہ صرف 42 فیصد پاکستانیوں کو یہ سہولت میسر ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا میں کہیں بھی واش رومز استعمال کرنے کے لیے پیسے نہیں لیے جاتے بلکہ واش رومز مہیا کیے جاتے ہیں، جبکہ  ہمارے ہاں یہ ایک کاروبار بن گیا ہے۔’

ایڈوکیٹ اظہر صدیق کہتے ہیں کہ ’ان کی پٹیشن مفاد عامہ کے لیے فائل کی گئی ہے کہ پورے پنجاب خصوصاً لاہور میں عوامی مقامات، بشمول ہائی کورٹس، بچوں کے پارکس، پلے گراؤنڈز، بس سٹیشنوں وغیرہ پر پبلک ٹوائلٹس صاف نظر نہیں آتے۔‘

میٹرو پولیٹن کارپوریشن لاہور کے ڈپٹی ڈائرکٹر پبلک فیسیلٹی محمد مدثر اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’لاہورمیں 32 پبلک ٹوائلٹس چل رہے ہیں جن میں سے 20 ٹھیکے پر دیے گئے ہیں، جبکہ باقی ایم سی ایل خود چلاتی ہے یا ان کو آکشن کیا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا ایم سی ایل کے علاوہ حکومت کے اپنے ادارے اپنے ٹوائلٹس بھی چلاتے ہیں جن میں پی ایچ اے، ماس ٹرانزٹ، اورنج لائن اور میٹرو بس وغیرہ کے سٹیشنوں پر بھی یہ سہولت موجود ہے۔

مدثر اسلم نے بتایا کہ لاہور میں لاری اڈوں کے علاوہ مارکیٹوں جیسا کہ سبزی منڈی، داتا دربار، شاہ عالم مارکیٹ، اچھرہ بازار، لبرٹی مارکیٹ، ریگل چوک وغیرہ پر بھی پبلک ٹوائلٹس موجود ہیں۔ جہاں ان کی زیادہ ضرورت ہوتی ہےوہاں قائم کر دیے جاتے ہیں۔

 پبلک ٹوائلٹس کی صفائی ستھرائی  

ان ٹوائلٹس کی صفائی کے حوالے سے مدثر اسلم کا کہنا تھا کہ جو بیت الخلا کنٹریکٹ پر دیے گئے ہیں ان میں کنٹریکٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ضرورت اور وقت کے حساب سے ٹوائلٹ کو فنکشنل رکھیں اور اس کی صفائی ستھرائی کا خیال بھی رکھیں۔ 

’اگر وہ اس بات کا خیال نہیں رکھتے تو ہماری چیکنگ ٹیم ان کے خلاف رپورٹ کرتی ہے اور ہم ان کنٹریکٹرز کے خلاف کاروائی بھی کر سکتے ہیں۔

’ایم سی ایل کے جو ٹوائلٹس چل رہے ہیں ان کے لیے بھی ہماری مانیٹرنگ ٹیمز ہیں جو مختلف اوقات میں چیک کرتی ہیں اور اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ وہاں صفائی ستھرائی اور پانی کی دستیابی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔‘

مدثرنے بتایا کہ ایم سی ایل کے تحت چلنے والے ٹوائلٹس کے ایک سٹرکچر میں ٹوٹل آٹھ واش رومز ہوتے ہیں جن میں تین خواتین کے لیے مختص ہوتے ہیں جبکہ ان کو استعمال کرنے کے لیے 10 روپے فی کس بھی لیا جاتا ہے۔ معذور افراد کے لیے ان ٹوائلٹس میں ایک ٹوائلٹ میں مخصوص کموڈ لگایا جاتا ہے۔‘

کیا مستقبل میں مزید ٹوائلٹس بنانے پر کام ہو رہا ہے؟

اس حوالے سے مدثر کا کہنا تھا: ’حکومت ہمیشہ عوام کو سہولت میسر کرنا چاہتی ہے لیکن اس میں ایک ضرورت یہ آتی ہے کہ جہاں ہم یہ سہولت دینا چاہتے ہیں وہاں زمین میسر ہو۔ اس وقت 15 ایسی سائٹس ہیں جہاں ہم نے پبلک ٹوائلٹس بنانے کی کوشش کی لیکن مقامی افراد کو اس پر اعتراض تھا اسی لیے انہوں نے عدالت سے ان کے خلاف سٹے لے لیا جس کی وجہ سے کام رک گیا۔‘

کیا عوام لاہور کے پبلک ٹوائلٹس استعمال کرتی ہے؟

2023 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ضلع لاہور کی آبادی ایک کروڑ 30 لاکھ سے زائد تھی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو لاہور میں چار لاکھ لوگوں کے لیے صرف ایک پبلک ٹوائلٹ میسر ہے۔ خصوصاً خواتین کے لیے صاف ستھرے پبلک ٹوائلٹس کا ناکافی ہونا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انارکلی کے تاجر الطاف حسن کا انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ’یہ ایک ایسی سہولت ہے جو مختلف جگہوں پر میسر ہونا چاہیے۔ ان کی کمی کے سبب ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ رفح حاجت کے لیے سڑک کے کنارے بیٹھ جاتے ہیں۔ 

’حکومت کو چاہیے کہ وہ لوگوں میں شعور پیدا کرے اور ہر جگہ بیت الخلا ہونے چاہییں تاکہ جگہ جگہ گندگی نہ پھیلائی جائے۔‘

سیدہ عابدہ کا کہنا ہے: ’پبلک پلیس پر واش روم صاف ستھرے نہیں ملتے اگر کہیں ملتے بھی ہیں تو وہ اتنے گندے ہوتے ہیں کہ ان میں جانے کو دل نہیں کرتا بہت برا محسوس ہوتا ہے۔ ہم لیڈیز کے لیے یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، ہم پھر دیکھتے ہیں کہ کسی ریستوران میں چلے جائیں یا کوئی سکول کالج ڈھونڈیں۔‘

بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ رفع حاجت کے لیے لوگ ریستورانز کا رخ بھی کرتے ہیں لیکن وہ ایک الگ شرمندگی کا سبب بنتا ہے کیونکہ زیادہ تر ریستوران والے یہ امید کرتے ہیں کہ آپ پہلے کچھ آرڈر کریں اس کے بعد ان کے ٹوائلٹ استعمال کریں۔

بعض چھوٹے ریستورانوں میں تو ٹوائلٹ ہی نہیں ہوتا یہاں تک کہ ان کے اپنے ملازمین کے لیے بھی نہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے ایم سی ایم کے بنے ایک ٹوائلٹ کا رخ کیا جو لبرٹی مارکیٹ میں بنا تھا۔

یہ ٹوائلٹ لبرٹی مارکیٹ میں داخل ہوتے ہی سیدھے ہاتھ پر ایک پارک میں بنے ہیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو لیڈیز ٹوائلٹ میں سے ایک صاحب  باہر آ رہے تھے جنہوں نے وہاں انتظامیہ کے ایک شخص کو واش روم دھونے کی آواز لگائی۔

ہمیں دیکھ کر وہ حضرت تھوڑا گھبرا گئے اور تیز قدموں سے اس احاطے سے باہر نکل گئے۔

ان واش رومز کی حالت نہ بہت اچھی تھی نہ بہت خراب بس اندر ایک چارپائی پڑی تھی جبکہ صابن کے نام پر صرف ایک واش بیسن پر ایک خالی ہینڈ واش کی بوتل تھی، کھڑکیوں میں بھی کچھ گندے کپڑوں کے ٹکڑے وغیرہ موجود تھے۔

اس کے بعد ہم نے جینٹس ٹوائلٹ کا رخ کیا تو وہاں دیکھا کہ کچھ لوگ اندر سے نہا کر باہر نکلے اور باہر لگے آئینوں میں اپنے بال سنوار رہے تھے ان واش رومز کی حالت بھی کچھ خاص صاف نہیں تھی۔

ان واش رومز کا دیہان رکھنے والے محمد زبیر سجاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ یہاں واش رومز کی صفائی کا خیال رکھتے ہیں اور واش روم استعمال کرنے والوں سے دس دس روپے لیتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مردوں کے ٹوائلتس میں کام ہونے والا ہے  یہاں کے کموڈ خراب ہیں صفائی تو ہم کرتے ہیں لیکن صارف سہولت دیکھتے ہیں اور سہولیات ان واش رومز میں بہت کم ہیں۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت