امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں کشیدگی برقرار ہے اور سڑکوں پر مظاہرین کی نیشنل گارڈ کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔
خبررساں ادارے (اے پی) کے مطابق لاس اینجلس میں اتوار کو کشیدگی میں اس وقت شدت اختیار کر گئی جب ہزاروں مظاہرین صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لگ بھگ 2000 نیشنل گارڈز کی غیر معمولی تعیناتی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔
یہ مظاہرے صدر ٹرمپ کی امیگریشن سے متعلق سخت پالیسی کے خلاف ہو رہے ہیں۔ امیگریشن حکام کے چھاپوں کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے تیسرے دن میں داخل ہو چکے ہیں۔
کیلی فورنیا کے گورنر گیون نیوزم نے ٹرمپ انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ لاس اینجلس کاؤنٹی میں 2,000 نیشنل گارڈز کی تعیناتی کا حکم واپس لیں۔ انہوں نے اس تعیناتی کو ’غیر قانونی‘ قرار دیا۔
ٹرمپ نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’گورنر گیون نیوزکم اور ’میئر‘ بیس کو لاس اینجلس کے عوام سے معافی مانگنی چاہیے ’اس انتہائی ناقص کارکردگی پر جو وہ دکھا چکے ہیں، اور اب اس میں لاس اینجلس کے فسادات بھی شامل ہو چکے ہیں۔‘
انہوں نے ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ’یہ مظاہرین نہیں بلکہ شرپسند اور بغاوت کرنے والے ہیں۔‘
مخالفین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے، جو اپنی دوسری مدت میں غیر قانونی ترک وطن پر سختی کو اہم ایجنڈا بنا رہے ہیں، جان بوجھ کر کیلی فورنیا میں نیشنل گارڈ کو تعینات کر کے حالات کو مزید خراب کیا ہے۔ یہ وہ فورس ہے جو عام طور پر ریاست کے گورنر گیون نیوزم کے ماتحت ہوتی ہے۔
گورنر نیوزم نے ایکس پر لکھا کہ ’جب تک ٹرمپ نے مداخلت نہیں کی، سب کچھ ٹھیک تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ریاستی خودمختاری کی سخت خلاف ورزی ہے۔ جہاں وسائل کی اصل ضرورت ہے، وہاں سے ہٹا کر کشیدگی بڑھائی جا رہی ہے۔ یہ حکم واپس لیا جائے اور کیلی فورنیا کا کنٹرول واپس دیا جائے۔‘
کشیدگی میں اضافے کے بعد وزیر دفاع پیٹ ہیگسیت کے حکم پر تقریباً 500 میرینز کو لاس اینجلس میں ’تعیناتی کے لیے تیار حالت‘ میں رکھا گیا ہے تاکہ اگر ضرورت پڑے تو وہ وفاقی املاک اور اہلکاروں کی حفاظت کر سکیں۔
مظاہرین نے ایک مرکزی شاہراہ بند کر دی اور کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہجوم کو قابو میں رکھنے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا بھی استعمال کیا۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق شام ہوتے ہی کئی مظاہرین منتشر ہو گئے کیوں کہ پولیس نے اجتماع کو غیر قانونی قرار دے دیا جو اس بات کا اشارہ تھا کہ اگر لوگ منتشر نہ ہوئے تو گرفتاریاں کی جائیں گی۔
جو لوگ باقی رہ گئے، ان میں سے کچھ نے عارضی رکاوٹ کے پیچھے سے پولیس پر کنکریٹ کے ٹکڑے اور پتھر پھینکے جو کیلی فورنیا ہائی وے پٹرول کے افسروں اور ان کی گاڑیوں لگے اور افسران نے ایک انڈر پاس کے نیچے جا کر پناہ لی۔
چار کروڑ کی آبادی والے شہر لاس اینجلس میں اتوار کے مظاہرے شہر کے وسطی علاقے کے کئی بلاکوں میں مرکوز رہے۔
گارڈ کی تعیناتی خاص طور پر وفاقی عمارتوں کی حفاظت کے لیے کی گئی جن میں وہ وسطی حراستی مرکز بھی شامل ہے جہاں مظاہرین جمع تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لاس اینجلس کے پولیس چیف جِم میک ڈونل نے کہا کہ مظاہرین میں باقاعدہ ایسے افراد بھی شامل تھے جو مظاہروں میں محض فساد پھیلانے کے لیے آتے ہیں۔
صبح سے ہی فوجی دستے ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے تھے، اُن کے ہاتھوں میں بندوقیں اور ہنگامہ روکنے والی شیلڈز تھیں۔ مظاہرین ’شرم کرو‘ اور ’واپس جاؤ‘ کے نعرے لگائے۔
جب کچھ مظاہرین گارڈ اہلکاروں کے بہت قریب آ گئے، تو وردی میں ملبوس ایک اور دستہ آگے بڑھا اور دھواں پیدا کرنے والے بم چلائے۔
چند ہی منٹ بعد لاس اینجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہجوم پر قابو پانے والا اسلحہ استعمال کیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادار اے ایف پی کے مطابق اتوار کو لاس اینجلس میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس نے مظاہرین کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھیجے گئے نیشنل گارڈ سے دور رکھنے کی کوشش کی۔
اتوار ہنگاموں کا تیسرا روز تھا۔ مظاہرین امیگریشن حکام کی کارروائیوں پر برہم تھے۔ جن کے نتیجے میں درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا، جنہیں حکام غیر قانونی تارکین وطن اور گینگ کے ارکان قرار دے رہے ہیں۔
جمعے کو جب دن دہاڑے لاس اینجلس میں، جہاں لاطینی لوگوں کی بڑی تعداد رہتی ہے، امیگریشن حکام کے چھاپے شروع ہوئے، تو اندازہ تھا کہ اس آزاد خیال شہر میں لوگ ضرور ردعمل دیں گے۔