امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کو نیشنل گارڈ کے 2000 اہلکاروں کو لاس اینجلس کی سڑکوں پر تعینات کرنے کا حکم دیا، جسے وائٹ ہاؤس نے ’قانون کی خلاف ورزی‘ کو روکنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب امیگریشن انفورسمنٹ کے خلاف مظاہروں کے دوران پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے ریاست کی فوج پر وفاقی کنٹرول حاصل کر کے فوجیوں کو لاس اینجلس بھیجا تاکہ وہ مظاہرین کے خلاف کارروائی کر سکیں۔ گورنر کیوین نیوسم نے اس اقدام کو ’جان بوجھ کر مشتعل کرنے والا‘ قرار دیا۔
وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ٹرمپ نے نیشنل گارڈ کے دستوں کی تعیناتی کے لیے ایک صدارتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں تاکہ ’اس لاقانونیت کا ازالہ کیا جا سکے جس کو بڑھنے دیا گیا ہے۔‘ ٹرمپ کے سرحدی امور کے مشیر، ٹام ہومن نے فاکس نیوز کو بتایا کہ نیشنل گارڈ ہفتہ کو لاس اینجلس میں تعینات کیا جائے گا۔
یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب دو دنوں تک مظاہروں میں وفاقی اہلکاروں نے مظاہرین پر فلیش بینگ دھماکہ خیر مواد، کالی مرچ کا سپرے اور آنسو گیس پھینکی تھی، جو متعدد غیر دستاویزی تارکین وطن کی گرفتاریوں کے خلاف غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے۔ جبکہ مظاہرین نے وفاقی اہلکاروں پر پتھراؤ کیا تھا اور املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔
لاس اینجلس کی بڑی ہسپانوی کمیونٹی کی موجودگی کی وجہ سے ان مظاہروں میں شدت آ گئی تھی۔
ویڈیوز میں دکھایا گیا کہ ایک گاڑی ایک مصروف چوراہے پر ندر آتش کر دی گئی جس میں شعلوں نکل رہے تھے، جبکہ ایک ویڈیو میں ایک شخص موٹرسائیکل ہیلمٹ پہنے ہوئے وفاق کی گاڑیوں پر پتھر پھینک رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری کیرولائن لیویٹ نے کہا کہ ’صدر ٹرمپ نے 2,000 نیشنل گارڈ کے اہلکاروں کو قانون کی خلاف ورزی روکنے کے لیے تعینات کیا ہے، کیونکہ کیلیفورنیا کے ڈیموکریٹک رہنما اس حوالے سے بہت غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی ’زیرو ٹالرنس‘ پالیسی ہے اور خاص طور پر جب تشدد کا سامنا پولیس افسران کو ہو۔
نیشنل گارڈ اکثر قدرتی آفات جیسے لاس اینجلس کی آگ کے بعد تعینات کیے جاتے ہیں اور کبھی کبھار سول ہنگامی حالات میں، لیکن یہ عام طور پر مقامی سیاستدانوں کی اجازت سے کیا جاتا ہے۔ ہفتہ کو یہ اجازت نہیں تھی۔
گورنر نیوسم نے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’یہ اقدام جان بوجھ کر مشتعل کرنے والا ہے اور صرف کشیدگی کو مزید بڑھائے گا۔‘
انہوں نے ایکس پر لکھا کہ ’وفاقی حکومت کیلیفورنیا نیشنل گارڈ کو کنٹرول کر رہی ہے اور 2,000 فوجیوں کو لاس اینجلس بھیج رہی ہے — نہ کہ اس وجہ سے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمی ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ اس کے ذریعے ایک شو چاہتے ہیں۔‘
یو ایس اٹارنی برائے سینٹرل ڈسٹرکٹ آف کیلیفورنیا بل ایسائلی نے کہا کہ گارڈز کو ’اگلے 24 گھنٹوں کے اندر‘ تعینات کر دیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ کے وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹھ نے مزید کشیدگی پیدا کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ قریبی فوجی دستے بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
’اگر تشدد جاری رہا، تو ایکٹیو ڈیوٹی میرینز کو کیمپ پینڈلیٹن میں متحرک کر دیا جائے گا — وہ ہائی الرٹ پر ہیں۔‘
قانون کے ماہر جیسیکا لیوینسن نے کہا کہ ہیگسیٹھ کا یہ بیان علامتی لگتا ہے، کیونکہ امریکی فوج کو ملکی معاملات میں مداخلت کی قانونی حدود ہوتی ہیں، جب تک کوئی بغاوت نہ ہو۔ ’اس وقت، یہ انسریکشن ایکٹ کا استعمال نہیں ہے، بلکہ ٹرمپ اس میں ٹائٹل 10 کا سہارا لے رہے ہیں۔‘
ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد، انہوں نے غیر قانونی تارکین وطن کی موجودگی اور ان کے داخلے پر سخت کارروائی کرنے کا وعدہ پورا کیا ہے۔ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمہ نے کہا ہے کہ لاس اینجلس میں اس ہفتے کے دوران ہونے والی امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) کی کارروائیوں میں ’118 غیر قانونی افراد، جن میں پانچ گینگ ممبران بھی شامل تھے، کو گرفتار کیا گیا۔‘
ہفتہ کو مظاہرین ایک وفاقی ادارے کے باہر جمع ہوئے، جسے مقامی میئر کے مطابق ایجنٹس کے لیے ایک سٹیشن کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ جمعہ کو مسلح اور نقاب پوش امیگریشن ایجنٹس نے لاس اینجلس کے مختلف حصوں میں بڑے پیمانے پر ورک پلیس ریڈز کیں، جس کے بعد غم و غصے کی لہر اور کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے تصادم ہوئے۔
لاس اینجلس کے میئر کیرن بیس نے کہا کہ شہر کے بعض رہائشی ’خوف محسوس کر رہے ہیں‘ اور ’سب کو پرامن احتجاج کا حق حاصل ہے، لیکن تشدد اور تباہی ناقابل قبول ہے، اور اس کے ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔‘
ایف بی آئی کے نائب ڈائریکٹر ڈین بونگینو نے کہا کہ جمعہ کے تصادم کے بعد متعدد گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ ’اگر آپ انتشار لائیں گے تو ہم ہنڈکفس لے کر آئیں گے۔ قانون اور نظم و ضبط غالب آئے گا۔‘
ہفتے کو، جب مظاہرین نے آئی سی ای ایجنٹس کے خلاف نعرے بازی کی، کچھ نے میکسیکن پرچم لہرا رکھے تھے جبکہ دوسرے نے امریکی پرچم کو آگ لگا دی۔ اسی دوران سیمنٹ بلاکس اور الٹھی ہوئی شاپنگ کارٹس نے سڑکوں کو روکا۔
وائٹ ہاؤس نے ان مظاہروں کے خلاف سخت موقف اپنایا، اور نائب چیف آف سٹاف اسٹیفن ملر نے کہا کہ یہ ’امریکہ کے قوانین اور خودمختاری کے خلاف بغاوت‘ ہے۔