خواتین فٹ بالرز کو گھٹنے کی چوٹوں کا زیادہ سامنا کیوں؟

یہ چوٹیں فٹ بالرز کو کئی ماہ تک کھیل سے دور رکھ سکتی ہیں اور نوعمر لڑکیوں کو خاص طور پر جسمانی اور ذہنی وجوہات کی بنا پر ان کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

نیدرلینڈز خواتین فٹ بال کا مرکز ہے، جس کی قومی ٹیم 2017 میں یورپی چیمپیئن بنی اور 2019 میں ورلڈ کپ فائنل تک پہنچی تھی (ڈچ فٹ بال ایسوسی ایشن)

نیدرلینڈز کی ایک فٹ بال پچ پر 15 سالہ اسمی سٹوٹ کونز کے درمیان دوڑ لگا رہی ہیں۔ اس دوران ان کی ہر حرکت گھٹنے کی چوٹ کا جائزہ لینے کی کوشش کے طور پر کیمرے میں فلم بند ہو رہی ہے، جو لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔

کروشی ایٹ لیگامنٹ (Cruciate ligament) کی چوٹیں فٹ بالروں کو کئی مہینوں تک کھیل سے دور رکھ سکتی ہیں اور نوعمر لڑکیوں کو خاص طور پر جسمانی اور ذہنی وجوہات کی بنا پر اس کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

ایف سی گروننگن ٹیم کی یوتھ سٹرائیکر اسمی اس مطالعے میں حصہ لے رہی ہیں، جس کا مقصد ان جیسی نوجوان فٹ بالرز کی نقل و حرکت کو بہتر بنانا ہے۔

انہوں نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا: ’میری عمر کی بہت سی لڑکیوں کو یہ مسئلہ ہوا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں ان کی مدد کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکی۔‘

نیدرلینڈز خواتین فٹ بال کا مرکز ہے، جس کی قومی ٹیم 2017 میں یورپی چیمپیئن بنی اور 2019 میں ورلڈ کپ فائنل تک پہنچی تھی۔

اس چھوٹے سے ملک میں ایک لاکھ 75 ہزار خواتین کلب ممبر ہیں، جبکہ یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، جبکہ بہت زیادہ آبادی والے ملک فرانس میں ان کھلاڑیوں کی تعداد دو لاکھ 50 ہزار سے زیادہ ہے۔

گروننگن یونیورسٹی میں سپورٹس سائنس کی ماہر پروفیسر این بینجمنز کا کہنا ہے کہ ’بلوغت میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے زخمی ہونے کے امکانات چار سے آٹھ گنا زیادہ ہوتے ہیں۔‘

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ فرق تقریباً 12 سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے۔

’بس بدقسمتی‘

اور مسئلہ صرف جسمانی نہیں ہے، این بینجمن ذہنی صحت کے پہلو کو بھی دیکھ رہی ہیں، جو ان کے خیال میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں مختلف اوقات میں مضبوط ہوتی ہیں، حیض کے دوران عضلات زیادہ نازک ہوتے ہیں۔ اس دوران تناؤ، موڈ اور تھکاوٹ میں اضافے کے نتیجے میں چوٹیں لگتی ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’طلاق، موت، نقل و حرکت، سکول میں خراب گریڈ یا کسی سے بحث و تکرار، یہ ہمارے لیے چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں لیکن ان کے لیے بڑے مسائل ہیں جو جسمانی چوٹ کا باعث بن سکتے ہیں۔‘

یورپی فٹ بال کی گورننگ باڈی یوئیفا اور ڈچ فٹ بال ایسوسی ایشن کے تعاون سے کی جانے والی اس تحقیق میں 12 سے 21 سال کی عمر کی لڑکیوں اور نوجوان خواتین کا جائزہ لیا گیا ہے۔

جسمانی نقل و حرکت کی جانچ پڑتال کے علاوہ شرکا نے پچھلے ہفتے میں اپنے موڈ کی تفصیلات کے ساتھ ایک فارم پُر کیا، جس سے محققین کو ذہنی صحت سے لنک بنانے میں مدد ملتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ دماغی صحت اور نقل و حرکت کلبوں کے تربیتی طریقوں میں اسی سطح پر ’معیاری عنصر‘ بن جائیں، جیسا کہ جم کے کام اور غذائیت ہوتے ہیں۔

44 سالہ پروفیسر نے کہا: ’اس پر اب سوال نہیں اٹھایا جانا چاہیے۔ اگر لڑکیاں صحیح محسوس نہیں کرتی ہیں تو انہیں بولنے کے قابل ہونا چاہیے اور کوچ کو اس کو دھیان میں رکھنا چاہیے۔‘

پچ پر واپس آنے پر ایسمی گیند کے ساتھ اور اس کے بغیر سمت میں تیزی سے تبدیلی کے ساتھ شٹل رن کا مظاہرہ کرتی ہیں اور پھر ایک دفاعی کھلاڑی کا مقابلہ کرتی ہیں، جو اچانک نمودار ہوتا ہے۔

ایف سی گروننگن ویمنز ٹیم کی مینیجر اور اسمی کی کوچ ہینڈریکا کنگما کا کہنا ہے کہ سیزن کے اختتام پر ان کی دو کھلاڑیوں کو انجری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہمیں اپنے نوجوان کھلاڑیوں کو لگنے والی چوٹوں کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’اس مطالعے کی بدولت، میں جانتی ہوں کہ میری لڑکیاں اس مسئلے سے آگاہ ہوگئی ہیں۔‘

مطالعے اور مسئلے کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے باوجود این بینجمن ان چوٹوں کے بارے میں فلسفیانہ رائے رکھتی ہیں۔ بقول ان کے: ’کبھی کبھی یہ صرف بد قسمتی ہوتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فٹ بال