فٹ بال بھی مصنوعی ذہانت کے سامنے مزاحمت نہ کر سکا

مصنوعی ذہانت کے ذریعے ڈیٹا جمع کرنے والی پولینڈ کی سپورٹس ٹیکنالوجی کمپنی ری سپو وژن کے مطابق ان کا پروگرام فٹ بال کے ایسے پہلوؤں پر ڈیٹا فراہم کر سکتا ہے، جنہیں انسان نہیں دیکھ سکتے۔

جاپان کی فارورڈ نمبر 11 مینا تاناکا، مڈفیلڈر نمبر 20 ماناکا ماتسوکوبو، برازیل کی ڈیفینڈر نمبر 23 عیسی ہاس اور مڈفیلڈرنمبر 8 انجلینا برازیل اور جاپان کے درمیان دو جون 2025 کو دوستانہ فٹ بال میچ کے دوران ریاست ساؤ پولو کے سیسیرو ڈی سوزا مارکیز میونسپل سٹیڈیم میں ایکشن میں (نیلسن المیڈا / اے ایف پی)

کھیل بھی مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کی لہر کے سامنے مزاحمت نہیں کر سکا اور دنیا میں سب سے زیادہ کھیلے جانے والے کھیل فٹ بال کو اُس ڈیٹا سے فائدہ ہو رہا ہے، جو مصنوعی ذہانت فراہم کر سکتی ہے، مگر انسانی آنکھ نہیں۔

پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں قائم سپورٹس ٹیکنالوجی کمپنی ری سپو وژن، جو دعویٰ کرتی ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے ڈیٹا جمع کرنے میں منفرد ہے، کے شریک بانی پاویل اوسٹریشر نے اے ایف پی کو بتایا کہ کمپنی کے دو فوری مقاصد ہیں۔ ایک خواتین کی فٹ بال اور دوسرا جنریشن زی کو کھیل دیکھنے میں دوبارہ دلچسپی دلانا۔

یہ کمپنی، جس کے مؤکلین میں وسطی امریکہ اور کیریبین کی فٹ بال کنفیڈریشن اور کنفیڈریشن آف نارتھ، سینٹرل امریکہ اینڈ کیریبین ایسوسی ایشن فٹ بال شامل ہیں، محض کیمرے کے ایک زاویے سے میچز کا ڈیٹا حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

یہ طریقہ ڈیٹا جمع کرنے کو بہت سستا بنا دیتا ہے، کیوں کہ کھلاڑیوں کو کوئی ٹیکنالوجی پہننے کی ضرورت نہیں پڑتی اور مصنوعی ذہانت کی بدولت ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے متعدد کیمروں کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔

ری سپو وژن کے اس پروگرام کو، جو گذشتہ سال کوپا امریکہ میں استعمال ہوا، حال ہی میں فیفا کی منظوری ملی ہے۔

اوسٹریشر کے مطابق مصنوعی ذہانت فٹ بال کے ایسے پہلوؤں پر ڈیٹا فراہم کر سکتی ہے، جنہیں انسان نہیں دیکھ سکتے، جیسے رفتار میں تیزی، پاسنگ کے راستے، ہیٹ میپس اور کنٹرول کے علاقے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ڈیٹا بڑے کلبوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے کلبوں کے لیے بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے یہ دوسری ڈویژن کی ٹیم وسلا کراکوف کو 2024 میں پولش کپ جیتنے کے دوران بڑے کلبوں کو ہرانے میں مدد دے چکا ہے۔

تاہم، اس کامیابی کے باوجود 36 سالہ اوسٹریشر کہتے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی مردوں کے ورلڈ کپ یا اس سال کے مردوں کے ورلڈ کلب کپ کا ہدف نہیں رکھ رہے۔

اس کی بجائے وہ 2028 میں ہونے والے پہلے خواتین کے ورلڈ کلب کپ کی کوریج کو ہدف بنا رہے ہیں، جو ان کے ایک اور مقصد کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے یعنی جنریشن زی (1997 سے 2012 کے درمیان پیدا ہونے والے افراد) کی کھیل دیکھنے میں کم ہوتی دلچسپی کو روکنا۔

انہوں نے کہا: ’اس وقت ہم کھیلوں کی مارکیٹ میں مجموعی طور پر جو دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ خواتین کے کھیل کہیں زیادہ تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یقیناً یہ ایک نچلی سطح سے شروع ہو رہا ہے، لیکن اس کی رفتار مردوں کے کھیل کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

’آپ کہہ سکتے ہیں کہ مردوں کے کھیل میں گنجائش نہیں رہی لیکن کھیلوں میں اس وقت سب سے بہتر سرمایہ کاری اور ترقی کے مواقع خواتین کی ٹیموں، خواتین کے کھیل اور اس سے متعلق میڈیا میں موجود ہیں۔‘

اوسٹریشر کہتے ہیں کہ یہ ان نوجوان ناظرین کی دلچسپی دوبارہ زندہ کرنے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے، ’جو تیزی سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔‘

نوجوان ’یہ توقع رکھتے ہیں کہ فوراً کچھ دلچسپ ہو۔ میرے پاس صرف پانچ سیکنڈ ہیں، اگر کچھ نہ ہوا تو میں آگے چلا جاؤں گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’خواتین کا کھیل بھی شاید ایک موقع ہیں کہ کھیل نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرے، کیوں کہ شاید ہر بار ایک جیسے سیٹ اپس، ایک جیسے کھلاڑیوں کو دیکھنا بہت بور کر دینے والا ہو چکا ہے۔

’اس لیے خواتین کے کھیل میں بہت سی سرمایہ کاری ہو رہی ہے اور ہمارے نقطہ نظر سے بھی۔

’ہم غیر جانبدار ہیں۔ انسان تو انسان ہے۔ ہم ڈیٹا انسانوں پر جمع کرتے ہیں، کسی خاص صنف پر نہیں۔

’مگر بلاشبہ، زیادہ سے زیادہ صارفین ہم سے صرف خواتین کی لیگوں کی کوریج کی درخواست کر رہے ہیں۔‘

اوسٹریشر، جنہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہ کمپنی پانچ سال پہلے قائم کی، کہتے ہیں کہ وہ ’حقیقت پسند‘ ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہر کسی کو یہ ٹیکنالوجی استعمال نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ ’یہ ایک پیچیدہ چیز ہے، جس کے لیے مخصوص وسائل درکار ہوتے ہیں۔‘

اس کے باوجود پولینڈ میں وسلا کراکوف کی ٹیم نے کپ جیت کر دکھا دیا کہ آپ ’کم وسائل سے زیادہ حاصل کر سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’آپ ایک چھوٹی سی ٹیم کو ٹیکنالوجی کا سمجھداری کے استعمال کرتے ہوئے بڑے کلبوں کو ہرا دینے کے قابل بنا سکتے ہیں۔‘

تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ کوئی ’جادوئی حل‘ نہیں، کیوں کہ انسانی کمزوریاں بھی اثرانداز ہو سکتی ہیں۔

’ہو سکتا ہے کسی کھلاڑی کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہوا ہو اور وہ کھیل پر توجہ نہ دے پا رہا ہو۔‘

اگرچہ یہ ٹیکنالوجی پہلے ہی آزمائی جا چکی ہے اور اوسٹریشر اور ان کی ٹیم نیا قدم اٹھانے کے معاملے میں چند ماہ کے فاصلے پر ہیں تاکہ وہ نوجوان ناظرین کو واپس لا سکیں، جن کی توجہ اب ٹک ٹاک، نیٹ فلکس اور دیگر پلیٹ فارمز کی طرف منتقل ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’کھیلوں کے لیے اس کا حل یہ ہے کہ ایسا مواد تیار کیا جائے جو ان کی پسند کے زیادہ قریب ہو۔

’آپ ایک میچ کو تھری ڈی میں دوبارہ تخلیق کر سکتے ہیں، جو ہم کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

’تصور کریں کہ کوئی تاریخی گول ہوا ہو، یا کوئی بھی گول اور آپ ری پلے میں کھلاڑی کی نظر سے اسے دیکھ سکیں۔

’ہم ممکنہ طور پر ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں کھیلوں کو خود کو کچھ حد تک نئے سرے سے پیش کرنا پڑے گا۔ اپنے پیش کیے جانے کے انداز کو بدلنا ہو گا تاکہ وہ ان لوگوں کو ٹک ٹاک، ویڈیو گیمز اور موبائل گیمز کی دنیا میں کھونے سے بچا سکیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فٹ بال