صدر سیسی کے ظلم و بربریت پر امریکہ، برطانیہ کی آنکھیں بند

حکومت مخالف مظاہروں میں اب تک 3000 سے زائد مصری گرفتار ہو چکے ہیں، لیکن ٹرمپ مصری صدر کو اپنا پسندیدہ آمر قرار دیتے ہیں اور برطانیہ آج بھی مصر میں سب سے بڑا سرمایہ کار ہے۔

مصر کے صدر عبدالفتح السیسی(اے ایف پی)

مصر میں کچھ والدین نے اپنے بچوں پر جمعے کو باہر نکلنے پر پابندی عائد کر دی ہے کیونکہ انہیں خوف ہے کہ کہیں ان کے بچے حکومت مخالف مظاہروں کا حصہ نہ بن جائیں اور اگر ایسا نہ بھی ہوا تو ان کے گرفتار ہونے کا اندیشہ ضرور ہے۔

دوسرے والدین نے اپنے بچوں کے موبائل فون قبضے میں لے کر انہیں مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ڈیلیٹ کر دیں۔

لیکن ان تمام احتیاطی تدبیروں کے باوجود کئی بچے عبدالفتح السیسی کے 2014 میں صدر بننے کے بعد پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر ہونے والی حالیہ گرفتاریوں سے بچ نہیں سکے۔

مصری کمیشن برائے آزادی اور حقوق کے مطابق، صدر سیسی کے جبر، بدعنوانی اور تباہ حال معیشت کے خلاف 20 ستمبر سے پھوٹنے والے مظاہروں کے بعد اب تک 3000 سے زائد لوگ حراست میں لیے جا چکے ہیں۔

ان میں مظاہرین، نمایاں انسانی حقوق کے رضاکار، صحافی اور سیاست دان شامل ہیں۔

اس کے علاوہ میں نے جن انسانی حقوق کے کارکنوں اور لوگوں کے انٹرویو کیے، انہوں نے بتایا کہ جلد بازی میں ہونے والی اس پکڑ دھکڑ میں سکول یونیفارم میں ملبوس بچے، قاہرہ میں چھٹیوں پر آئے سیاح، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے وکیل، راہ گیر، شام کو گلیوں میں گھومنے پھرنے والے نوجوان، غیر ملکی طالب علم اور سڑکوں پر مزدوری کرنے والے شامل ہیں۔

یہ تمام لوگ اب مصر کی بدنام زمانہ نظام انصاف کا سامنا کر رہے ہیں۔ عرب دنیا کے سب سے گنجان آباد ملک مصر میں سیاسی اور معاشی استحصال کے علاوہ حالیہ مظاہروں کے آغاز کا ایک سبب یو ٹیوب پر ایک سابق فوجی ٹھیکے دار محمد علی کی ریاستی کرپشن کے انکشاف بھی ہیں۔

مظاہرے شروع ہونے کے بعد سے مصری پولیس قاہرہ اور دوسرے بڑے شہروں میں دندناتی پھر رہی ہے۔

سکیورٹی اہلکار لوگوں کو روک کر ان کے موبائل فونز چیک کرتے ہیں، حتیٰ کہ وائی فائی ہاٹ سپاٹ کے ذریعے بظاہر لوگوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ فیس بک اور ٹوئٹر جیسی ڈیلیٹ شدہ ایپس دوبارہ انسٹال کریں تاکہ ان کی فیڈز اور پوسٹ چیک کی جا سکیں۔

اس کے علاوہ مصری صحافی، انسانی حقوق کے کارکن، معلم، وکلا اور حزب اختلاف کے سیاست دانوں کو سائبر حملوں کے ذریعے ہدف بنایا جا رہا ہے اور ان حملوں کا کُھرا سرکاری دفتروں تک جاتا ہے۔ یہ کہنا ہے دنیا کی بڑی سائبر سکیورٹی کمپنیوں میں سے ایک ’چیک پوائنٹ سافٹ ویئر ٹیکنالوجیز‘ کی رواں ہفتے ہونے والی ایک تحقیق میں۔

یہ بھی محسوس کیا جا رہا ہے کہ حکومت کے جانے مانے نقادوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ٹوئٹر اکاؤنٹس کو کوئی نشانہ بنا رہا ہے۔

ایسی ہی ایک متاثر مشہور مصری مصنف، سیاسی اور ثقافتی مبصر اور برٹش میوزیم کی سابق ٹرسٹی احداف سیف ہیں، جن کا ٹوئٹر اکاؤنٹ اتوار کی صبح عارضی طور پر معطل ہو گیا تھا۔

ان کے بھتیجے اور نمایاں انسانی حقوق کے کارکن اعلی عبدالفتح کو، جو 2011 کے انقلاب کا چہرہ تھے،دوبارہ ان کے وکیل کے ہمراہ گرفتار کر لیا گیا۔

زندگی بھر ہر آمرانہ حکومت میں گرفتار ہونے والے اعلی نے حال ہی میں بغیر اجازت احتجاج کرنے کے جھوٹے الزامات پر پانچ سال قید کی سزا پوری کی تھی۔

مصری کمیشن برائے آزادی اور حقوق کا کہنا ہے کہ اعلی کی طرح گرفتار 3000 افراد میں سے ایک چوتھائی کو ایک پراسیکیوٹر کے سامنے پیش کیا گیا۔

کمیشن نے ان میں سے صرف 57 لوگوں کے رہا کیے جانے کی تصدیق کی، ایک سو افراد ابھی تک لاپتہ ہیں جبکہ زیر حراست لوگوں پر مبینہ تشدد کی خبریں تیزی سے سامنے آ رہی ہیں۔

اس سب کے باوجود مصر کے کسی بڑے مغربی اتحادی نے مذمت کا ایک لفظ بھی نہیں کہا، بلکہ برطانیہ نے تو اس کا الٹ ہی کیا ہے۔

سیسی کی جانب سے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کے محض پانچ دنوں بعد وزیر اعظم بورس جانسن نے نیو یارک میں صدر سیسی سے ملاقات میں ان کی تعریفوں کے پُل باندھ دیے اور مظاہروں، گرفتاریوں یا کریک ڈاؤن کا ذکر تک نہیں کیا۔

مظاہروں سے پانچ دن پہلے مشرق وسطی کے لیے برطانوی وزیر’ مضبوط ہوتی معاشی پارٹنر شپ‘ پر تبادلہ خیال کے لیے مصر پہنچے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برطانیہ مصر میں سب سے بڑا سرمایہ کار ہے۔ جیسا کہ مصر میں برطانوی سفیر سر جیفری ایڈمز کہتے ہیں برطانیہ تجارت سمیت کئی شعبوں میں مصر کے بڑے پارٹنرز میں سے ایک ہے۔

لندن جانتا ہے کہ وہ مصری حکومت کو اپنی حد میں رہنے کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے، تاہم، دکھاوے کے لیے ہی سہی، اس نے ایسا نہیں کیا۔

ہم نے صدر سیسی کی انتظامیہ کے رویے پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں، کیونکہ ہمیں خدشہ ہے کہ اگر ’معتدل‘ مصر ساتھ نہ رہا تو پورا خطہ انتشار کا شکار ہو سکتا ہے۔

لیکن ایک ایسے سابق فوجی چیف کی پشت پناہی کرنے سے استحکام کیسے برقرار رہ سکتا ہے، جس نے 2013 میں صدر بننے سے پہلے انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق جدید ماضی میں غیرمسلح مظاہرین کا سب سے بڑا قتل عام کیا ہو؟

جس نے مظاہروں پر پابندی عائد کی ہو؟ خبروں اور انسانی حقوق کی سینکڑوں ویب سائٹس کو بند کیا ہو؟ جس نے ماضی میں لاکھوں مظاہرین کو گرفتار کیا ہو؟ اور جو حالیہ بد امنی کا سبب بنا ہو؟

مصری نژاد برطانوی فلم ساز اور احداف سیف کے بیٹے عمر رابرٹ ہملٹن کہتے ہیں، ’یہاں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ سیسی استحکام میں ایک اتحادی ہیں اور اس غلط فہمی کی وجہ سے دوسری حکومتوں بالخصوص یورپ نے سیسی کے رویے پر اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں‘۔

ہملٹن نے بتایا دوبارہ گرفتار ہونے سے پہلے ان کے کزن اعلی اپنی زندگی میں واپس آنے اور اپنے بیٹے سے دوبارہ تعلق جوڑنے کی کوشش کر رہے تھے، جو 2011 میں ان کے جیل میں بند ہونے کے دوران پیدا ہوا تھا۔

اعلی کے وکیل محمد باقر کو اپنے موکل کا مقدمہ لڑنے کے وقت گرفتار کیا گیا، جسے ہملٹن ’غیر مثالی‘ قرار دیتے ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ستمبر کے شروع میں سیسی سے ملاقات کا انتظار کرتےہوئے پوچھا تھا ’میرا پسندیدہ آمر کہاں ہے‘۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے کہا ’اگر کسی کو شبہ ہے تو میں سب کو بتا دوں کہ ہم بڑی حد تک صدر سیسی کے پیچھے کھڑے ہیں۔۔۔۔ ہم بہت سی چیزوں پر متفق ہیں‘۔

ہملٹن کہتے ہیں، ’سیسی نے ایک دن میں ایک ہزار لوگ قتل کر دیے اور وہ دنیا کی طاقت ور حکومتوں کے اتحادی ہیں۔ مصر قومی نہیں بلکہ علاقائی مسئلہ ہے‘۔

فی الحال مصری حکومت کی حکمت عملی کام کر گئی ہے اور مظاہرے دبا دیے گئے ہیں۔ صدر سیسی نے کچھ معاشی رعایتیں دی ہیں مثلاً انہوں نے تقریباً 20 لاکھ غریب مصریوں کے لیے بند ہونے والی خوراک پر سبسڈی بحال کر دی ہے۔

سیسی نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا کہ حکومت غریب شہریوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے پُر عزم ہے اور وہ خود اس پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے نظر رکھیں گے۔

تاہم، نقادوں نے سیسی کے معاشی اقدامات کو مصنوعی قرار دیا ہے اور اس وقت ہزاروں لوگ سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر