عطیہ فیضی اور فیضی سمیول رحمین: برصغیر کا نادر روزگار جوڑا

عطیہ فیضی رحمین نوّے سال کی عمر تک برصغیر کے ادبی اور سماجی حلقوں میں متحرک رہیں۔ عطیہ کی تاریخ پیدائش یکم جنوری 1877 اور جائے پیدائش استنبول ہے۔ ان کا انتقال یکم جنوری 1967 کو کراچی میں ہوا اور تدفین اسماعیلی بوہرہ قبرستان میں کی گئی۔

سمیول نے برصغیر کے سب سے قدیم فنِ مصوری کے اسکول 'جے جے اسکول' سے پڑھا اور 'رائل اکیڈمی آف آرٹ' کی سکالرشپ حاصل کی (چغتائی آرٹ بلاگ)

کم و بیش چار سال پرانی بات ہے کہ دفتر میں شکیل عادل زادہ صاحب نے وحید قریشی کی کتاب 'شبلی کی حیاتِ معاشقہ' پڑھنے کے لیے دی۔ ہمارا میدان چونکہ اردو ادب نہیں لیکن یہ پتلی سی کتاب عنوان کی وجہ سے دلچسپ لگی۔

ذہن میں شبلی کا حوالہ 'سیرت النبیﷺ' اور ندوۃ العلماء تھا۔ لیکن کتاب پڑھنے سے پہلی بار ہم عطیہ فیضی سے متعارف ہوئے۔ ایک ہی خیال آیا کہ وہ کیسی خاتون ہوں گی جن پر شبلی اور پھر اقبال نے پسندیدگی کا اظہار کیا۔

ان کے بارے میں مزید پڑھنے پر معلوم ہوا کہ کراچی میں ایم آر کیانی روڈ پر سپریم کورٹ کے ساتھ والی عمارت کے داخلی دروازے کے پہلو میں دیوار پر لگا بورڈ 'ایوانِ رفعت' اور عطیہ میں کیا رشتہ ہے۔

عطیہ بیگم یا عطیہ فیضی رحمین نوّے سال کی عمر تک برصغیر کے ادبی اور سماجی حلقوں میں متحرک رہیں۔ عطیہ کی تاریخ پیدائش یکم جنوری 1877 اور جائے پیدائش استنبول ہے۔ ان کا انتقال یکم جنوری 1967 کو کراچی میں ہوا اور تدفین اسماعیلی بوہرہ قبرستان میں کی گئی۔

کل کے بمبئی اور آج کے ممبئی کے مشہور طیب جی خاندان کی نواسی عطیہ کو 1898 میں خاندان کی پہلی سائیکل سوار خاتون ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں روایت شکن عطیہ نے فوٹوگرافی اور مصوری سیکھی۔ عام دستور کے مطابق گھر پر تعلیم حاصل کی۔ 1906 میں عطیہ برصغیر کی پہلی مسلم خاتون تھیں جنہیں اسکالرشپ پر کیمبرج میں پڑھنے کا موقع ملا۔ انہیں 'ٹیچر ٹریننگ کورس' کے لئے برطانیہ بھیجا گیا، لیکن وہ یہ سند کبھی حاصل نہ کر سکیں۔ عطیہ نے یورپ کا سفر ہو یا ہندوستان کا کوئی کونا، ہر جگہ اپنی داستان چھوڑی۔ ان کے یورپ کے روزنامچے پہلے پہل امتیاز علی تاج کی والدہ محمدی بیگم کے رسالے 'تہذیبِ نسواں' میں چھپتے رہے اور پھر ان کی تحریریں 'عصمت' کا بھی حصہ بنیں۔

نصراللہ خان اپنے خاکوں کی کتاب 'اور قافلہ جاتا ہے' میں عطیہ کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچتے ہیں: 'ان کی زبان پر کوکنی کا اثر تھا، لیکن انہیں فارسی اور اردو کے بہت سے اشعار یاد تھے۔ وہ انگریزی اور فرانسیسی فراٹے سے بولتیں۔ ملک کے ممتاز علما اور ادبا کی صحبت میں بہت کچھ سیکھا۔ انہیں بات کرنے کا سلیقہ آتا تھا۔' وہ آگے چل کر ان کی شخصی کمزوریوں کی بھی نشاندہی کرتے ہیں، جو ہر انسان کی ذات کا حصہ ہوتیں ہیں۔

منیزہ شمسی کی والدہ جہاں آرا حبیب اللہ اپنی کتاب 'زندگی کی یادیں: رام پور کا نوابی دور' میں لکھتی ہیں: '1924 میں عطیہ اور ان کی بہن نازلی جنجرہ رام پور تشریف لائیں۔ ملاقات کے وقت ان کے لباس اور دستکاری کی خوب تعریف کی۔ مجھے ان کا جملہ یاد ہے: یہ ہے اصلی شاہی لباسِ مغلیہ۔' انہیں عربی، فارسی اور انگریزی زبان پر خوب دسترس حاصل تھی۔ ان کے شوہر فیضی رحمین مشہور مصور تھے۔ انہوں نے مصوری، شاعری اور موسیقی کے فروغ کے لئے بمبئی میں ایک حلقہ بنایا تھا (ایوانِ رفعت)۔ گفتگو میں شائستگی تھی، ہزاروں اشعار نوکِ زباں پر رہتے۔ نوابِ رام پور کی بہن بنی ہوئی تھیں اور برنارڈ شا سے خط و کتابت تھی۔ مولانا شبلی سے ایسی راہ و رسم تھی کہ ان کے لئے فارسی میں کئی نظمیں تحریر کیں۔ اس سے زیادہ اور کیا تعریف ہو سکتی ہے۔

اقبال اے الرحمان منڈویا اپنی کتاب 'اس دشت میں ایک شہر تھا: کراچی کے سنہری دنوں کی داستان' میں لکھتے ہیں کہ عطیہ فیضی پاک و ہند کی ذہین اور تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ تعلق گجراتی گھرانے سے تھا۔ علم و فنون سے لگاؤ کے سبب جلد ہی انہیں پذیرائی حاصل ہوئی اور سماجی حلقوں میں معروف ترین شخصیت کے طور پر ابھریں۔ انہوں نے پیرس یونیورسٹی میں اس وقت لیکچر دیا جب برصغیر کی خواتین قلمی ناموں سے اپنی تحریریں چھپوایا کرتی تھیں۔ انہوں نے سکالرشپ حاصل کی اس وقت جب مسلم خواتین کی واجبی تعلیم بھی آسان نہ تھی۔ بلبلِ ہند کہلائی جانے والی سروجنی نائیڈو کے ساتھ سفر کیا اور اس سفر میں یہ ان ہی کا کمال تھا کہ گاندھی سے ان ہی کے خون سے دستخط لئے۔

شادی بھی انہوں نے مسلم رواج سے ہٹ کر کی۔ فیضی سمیول رحمین یہودی نژاد مسلمان تھے۔ نہ صرف فیضی نے عطیہ کے لئے اپنا مذہب چھوڑا بلکہ دونوں نے ایک دوسرے کے ناموں کو اپنایا۔ عطیہ بیگم سے عطیہ فیضی بنیں اور سمیول رحمین سے سمیول فیضی رحمین کہلائے۔ شادی کے وقت عطیہ کی عمر پینتیس سال جبکہ سمیول کی عمر تینتیس سال تھی۔

اقبال شبلی اور عطیہ

یہ موضوع ایسا ہے کہ عطیہ فیضی کا نام آتے ہی شبلی اور اقبال کا ذکر کیا جاتا ہے۔ لیکن عطیہ کا کردار اس پہلو کے علاوہ بھی ہے۔ انہیں دیگر حوالوں سے بھی یاد رکھنا چاہیے۔ ماہر القادری 'یادِ رفتگان' میں لکھتے ہیں: 'یہ نشاطیہ کامیڈی ہی تو ہے، مگر کسی حد تک المیہ بھی کہ علامہ شبلی نعمانی کے تذکرے کے ساتھ عطیہ فیضی کا نام بھی آتا ہے۔ علامہ شبلی کی شاعری کو اس دلچسپی نے کافی رونق اور رنگینی عطا کی۔ شبلی کی کتاب 'شعر العجم' اور خطوطِ شبلی میں بوئے گل اور دستہ گل جھلک رہا ہے۔ ایک خوبرو تعلیم یافتہ لڑکی کی قربت، دیداری اور ہم کلامی کے لطف نے مولانا شبلی کے دامن کو تھوڑا بہت رنگین بنا دیا۔ یہی نہیں بلکہ وہ عطیہ ہی تھیں جنہوں نے بیگم بھوپال سے کہہ کر 'سیرت النبیﷺ' کے لئے سرمایہ مہیا کیا۔'

اقبال کے دل و دماغ پر بھی عطیہ نے گہرا اثر ڈالا اور فارسی شاعری انہوں نے عطیہ کے کہنے پر شروع کی۔ اقبال کا جرمن زبان میں لکھا ہوا پہلا خط بھی ان ہی کے نام تھا۔ 1907 سے عطیہ اور اقبال کے درمیان خط و کتابت جاری رہی۔ دونوں نے جرمن سیکھی اور سکھائی۔ ڈاکٹر وسیم رضا اپنی کتاب 'عطیہ فیضی رحمین' میں لکھتے ہیں: 'عطیہ نے اقبال کے تھیسز کو پروف بھی کیا۔'

اسی کتاب میں 'شوخ اقبال' کا تصور خوب جھلکتا ہے۔ اس پہلو کی تصدیق ہمیں ضیاالدین برنی کی کتاب 'عظمتِ رفتہ' میں اقبال کے شخصی خاکے سے بھی ہوتی ہے۔ اقبال کی یہ پہچان میرے مطالعے میں اس سے پہلے نہیں آئی تھی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے حمیدہ اختر حسین رائے پوری نے اپنی کتاب 'ہم سفر' میں مولوی عبدالحق کا نقشہ کھینچا ہے: ایک شرارتی اور چلبلے بچے کی طرح۔ وسیم رضا لکھتے ہیں کہ عطیہ کے ہم عمر اقبال لندن میں عطیہ کے ساتھ محفلوں میں کہیں شرارتی، کہیں شوخ شاعری پیش کر رہے تھے۔ پھر عطیہ اور اقبال کے خطوط نے بھی ادبی حلقوں میں دھوم مچائی۔ مگر وسیم یہ بھی لکھتے ہیں: 'عطیہ نے مشفق خواجہ کو بتایا کہ ہم (اقبال اور میں) ایک دوسرے سے متاثر ہوئے تھے مگر اقبال مجھ سے اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہتے تھے۔'

ماہر القادری لکھتے ہیں کہ شبلی اور اقبال جیسی نادر روزگار شخصیات کی توجہ نے عطیہ بیگم کی فکر کو جلا بخشی۔ ایک پنجاب کا شیر اور دوسرا لکھنو کی عظمتِ رفتہ کا نمائندہ، دونوں بمبئی کی زلفوں کے اسیر ہونے کے باوجود شہسوار نہ بن سکے۔ ان کے مطابق عطیہ منفرد تھیں اس لئے سب ان کی توجہ چاہتے۔ وسیم بھی مانتے ہیں کہ 'شبلی اور اقبال کے زمانے میں بے پردہ ہندوستانی خواتین (نہ ہی مسلم اور نہ ہی ہندو) نظر نہیں آتیں تھیں جبکہ انگریز اور پارسی خواتین میں پردہ ناپید تھا۔ اس ماحول میں عطیہ جیسی خاتون جو یورپ کا سفر کرتی ہیں، لکھتی ہیں اور بحثوں میں برابر حصہ لیتیں، لہٰذا سب ان سے ملنا چاہتے تھے کہ یہ کون مسلم خاتون ہیں جو پورے ہندوستان اور یورپ میں دھوم مچا رہی ہیں۔'

انڈین فنِ مصوری کو نئی جہت دینے والے فیضی سمیول رحمین

فیضی سمیول رحمین کی تاریخ پیدائش 19 دسمبر 1880 اور جائے پیدائش پونا تھی۔ بقول وسیم، ان کی پینٹنگز برطانیہ اور فرانس کی آرٹ گیلریوں میں بھاری معاوضوں پر لگائی جاتیں بلکہ ان کے فن پاروں کی نمائش بکنگھم پیلس تک میں ہوئی۔ حسن ووڈا، لندن آرٹس کونسل کے رابطہ کار منیجر اور Goldsmiths و Tate سے منسلک محقق ہیں۔ وہ اپنے مضمون 'سمیول فیضی رحمین' میں لکھتے ہیں کہ وہ پہلے مسلم مصور تھے جن کی تصاویر Tate گیلری کا حصہ بنیں، جہاں پندرھویں صدی سے آج تک فنِ مصوری محفوظ ہے۔ فیضی پہلے مسلم غیر یورپی آرٹسٹ تھے جن کا کام یہاں پیش کیا گیا۔

سمیول نے برصغیر کے سب سے قدیم فنِ مصوری کے اسکول 'جے جے اسکول' سے پڑھا اور 'رائل اکیڈمی آف آرٹ' کی سکالرشپ حاصل کی۔ ان کے استادوں میں John Singer Sargent اور Solomon Joseph Solomon کے نام آتے ہیں۔ 1908 میں لندن سے ہندوستان واپس آئے اور نواب آف بروڈہ کے سرکاری مصور قرار پائے۔ یہاں ہی ان کی ملاقات عطیہ فیضی سے ہوئی۔

حسن، سمیول رحمین کے کام کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ ایک طرف 'یورپی آئل پینٹنگ' میں کام کر رہے تھے وہیں خالص ہندوستانی راجپوت پینٹنگز کے ماہر بنے۔ دو دہائیوں تک ان کے کام کو پورے یورپ میں سراہا گیا۔ سولو اور گروپ نمائشوں میں ان کے فن پارے پیش ہوتے رہے۔ Galerie Georges Petit, Paris اور Goupil Gallery, London میں ان کا کام نمائش کے لئے رکھا گیا۔ 1918 میں نیویارک میں ان کے فن پاروں کی نمائش ہوئی۔ یہاں عطیہ نے New School of Applied Design میں ہندوستانی پارچہ جات کی نمائش کی اور ہندوستانی لباس، کشیدہ کاری، سونے چاندی کے زیورات، مغل اور راجپوت منی ایچر کو متعارف کرایا۔ 1924 میں ان کا کام ویمبلے، لندن میں برطانوی سلطنت کے تحت پیش کیا گیا۔ اس کے بعد 1925 میں ان کے فن پارے ٹیٹ کلیکشن کا حصہ بنے جن میں 'راگنی ٹوڑی' اور 'گاڈیس' مشہور ترین ہیں۔ حسن سمجھتے ہیں کہ مغرب نے انہیں یاد نہیں رکھا۔ وہ لکھتے ہیں: 'میں نے جب پہلی بار 1952 کی وکٹوریہ البرٹ میوزیم کے انڈین سیکشن کی سربراہ کا ایک خط دیکھا، جو فیضی کے کام کی فائل میں لگی ہوئی تھی، تو مجھے رونا آگیا کہ ایک جنوبی ایشیائی مسلم مصور صدی پہلے یہاں موجود تھا اور ان کے کام کو نظر انداز کیا گیا۔'

ڈاکٹر وسیم لکھتے ہیں کہ اپریل 1925 میں عطیہ بیگم اور سمیول رحمین یورپ کے سفر پر نکلے۔ ان کے ہم سفر وائسرائے اور لیڈی ریڈنگ، حکیم اجمل، مختار انصاری اور مہاراجہ گوالیار تھے۔ اس سفر کا مقصد رحمین کی مصوری کی نمائش تھا۔ ان کے دو شاہکار پینٹنگز کو لندن کی نیشنل گیلری کے لئے خرید لیا گیا۔ وہ نامور مصور بن چکے تھے۔ جس کے بعد انہیں 1926-1929 میں دہلی امپیریل سیکریٹریٹ کے گنبد کو پینٹ کرنے کا اعزاز ملا۔ وہاں انہوں نے عربی خط میں 'اللہ اکبر' اور چھوٹے گنبد میں 'اوم' پینٹ کیا۔ حسن کہتے ہیں کہ اس میں Monumental Fresco کی تکنیک استعمال کی گئی، جو مشرق و مغرب کا امتزاج سمجھا جاتا ہے۔ پورٹریٹ میں بھی خوب نام کمایا، خاص طور پر نواب رام پور حامد علی خان کا۔ فیضی نے مولانا شوکت علی خان کو اس طرح پینٹ کیا کہ بقول وسیم رضا: 'مولانا اس تصویر میں اس قدر وجیہ لگ رہے تھے کہ جیسے کسی ملک کے بادشاہ ہوں۔'

ثمینہ اقبال، آرٹ کی تاریخ دان اور لاہور اسکول آف اکنامکس میں میڈیا سٹڈیز کی استاد ہیں۔ وہ فیضی رحمین کے کام پر کتاب لکھ رہی ہیں۔ ان کے مطابق فیضی کے کام کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: پہلا پورٹریٹ، دوسرا راجپوت اسٹائل پینٹنگ اور تیسرا منی ایچر۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے فیضی کے 63 سکیچز دیکھے ہیں جو ایوانِ رفعت کے بکسوں میں موجود ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے عطیہ کا ذاتی سامان بھی دیکھا جس میں ان کے لباس، ساڑھیاں، میزپوش اور ڈائریاں تھیں، جن کی خوشخط تحریر آپ کی توجہ کھینچ لیتی ہے۔

موسیقی اور فنون کی آبیاری کا شوق رکھنے والی صاحبِ کمال خاتون

ایوانِ رفعت سے پہلے ہی عطیہ فنونِ لطیفہ اور خاص طور پر ہندوستانی موسیقی سے شغف رکھتی تھیں۔ انہوں نے باقاعدہ موسیقی کی تعلیم استاد سے حاصل کی۔ وسیم لکھتے ہیں کہ 1923 میں نوابِ رام پور حامد علی خان نے عطیہ کے شوق کو دیکھتے ہوئے دربار سے منسلک مشہور موسیقار نظر خان کو ان کا استاد مقرر کر دیا۔

عطیہ نے اپنے موسیقی کے شوق کو جاری رکھا اور میاں کی تصویری نمائش کے ساتھ موسیقی اور راگوں پر کئی پروگرام کئے۔ موسیقی پر عطیہ فیضی رحمین نے 'Indian Music' نامی کتاب لکھی۔ مضامین کے ساتھ ساتھ فیضی رحمین کی تصاویر بھی شامل تھیں۔ 1925 میں عطیہ نے اسے دوبارہ شائع کرایا اور کتاب کا نام 'The Music of India' رکھا۔ کتاب میں وہ لکھتی ہیں کہ 1913 میں جب وہ بمبئی کے نزدیک ایک گاؤں میں موجود تھیں، وہاں وہ راگ اور راگنیاں چھیڑتیں اور فیضی پینٹ کرتے۔ دونوں نے مل کر پوری ایک سیریز تیار کی جسے 'راگ اور راگنیز' کا نام دیا گیا۔ وسیم لکھتے ہیں کہ عطیہ کی موسیقی میں مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1913 میں انہیں موسیقی پر اظہارِ خیال کے لئے پیرس کی Sorbonne University میں مدعو کیا گیا اور ان کی آواز میں ہندوستانی موسیقی اور راگ کو ریکارڈ کیا گیا۔

عقیل عباس جعفری 'پاکستان کرونیکل' کے صفحہ نمبر 268 میں لکھتے ہیں: 'عطیہ فیضی کو موسیقی سے بھی دلچسپی تھی۔ انہوں نے دو کتابیں بھی لکھیں جن میں ایک کا نام 'سنگت آف انڈیا' اور دوسرا 'انڈین میوزک' تھا۔ ان کے استاد نظیر خان تھے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

1937 میں اس جوڑے نے یورپ کا آخری سفر کیا۔ رحمین کے ڈرامے 'Daughter of India' کو لندن آرٹس تھیٹر کلب میں پیش کیا گیا جس میں عطیہ نے ایک المیہ گیت بھی گایا۔ ماہر القادری عطیہ کے خاکے میں لکھتے ہیں: 'عطیہ نے بمبئی میں اس ڈرامے کا اردو ترجمہ مجھ سے کرایا۔' مارجری حسین نے ڈان میگزین 'Review' میں 29 اکتوبر 1996 کو ایک فیچر لکھا، جسے ماہنامہ 'آج کل' نے 'کراچی کہانی' میں بھی شامل کیا۔ مارجری لکھتی ہیں کہ یہ ڈرامہ لندن میں انگریزی میں پیش کیا جانے والا پہلا ڈرامہ تھا۔ جبکہ منیزہ شمسی اپنی کتاب 'Hybrid Tapestries: The Pakistani Literature in English' کے مطابق کہتی ہیں کہ سمیول نے انگریزی زبان میں دو ڈرامے لکھے تاکہ برطانیہ ہندوستانیوں کو سمجھ سکے۔

بمبئی کا ایوانِ رفعت اور '3 آرٹ کلب'

یورپ سے واپسی پر فیضی اور عطیہ نے اپنے گھر کی تعمیر کا سوچا۔ 1919 میں 'ایوانِ رفعت' کی تعمیر ہوئی، جہاں عطیہ اور سمیول نے شہر کی سماجی تقریبات منعقد کیں، جن کی خوب شہرت ہوئی۔ جہاں ایک طرف فنِ مصوری کے دلدادہ پہنچتے، وہیں رقص و موسیقی سے لے کر ادبی مباحث بھی اس کا حسن تھے۔ کئی سالوں تک یہاں رونق برپا رہی۔

میاں بیوی نے 3 آرٹ سرکل اکیڈمی کھولی ۔ جس کی وجہ شہرت اس کے طلبہ تھے۔ جنھوں نے اپنے اپنے شعبوں میں خوب نام کمایا ۔ اس کا بنیادی مقصد موسیقی ،رقص اور مصوری کے فروغ تھا ۔ وسیم رضا کے مطابق عطیہ کے ایوان رفعت سے منسلک  کئی فن کار ہندوستانی سینما کی بنیاد بنے جیسے جہاں آرا کجن ، مختار بیگم ،اختر بائی فیض آبادی، میڈم آزوری، پیشنس کوپر وغیرہ۔

یہاں ادبی بحثیں ہوتی اورمشاعرے ہوتے اور احباب کے لئے تقریبات ترتیب دی جاتیں ۔ خالدہ ادیب خانم نے بھی اپنے بمبئی کے قیام میں تقریب کا احوال لکھا ہے۔ ایک طرف فن و فنکار کی ترویج ہو رہی تھی وہیں بہت سے مصور بھی اس کلب کا حصہ بنے، جیسے زبیدہ آغا جنہیں پاکستانی موڈرن آرٹ کی روح و رواں سمجھا جاتا ہے۔

وہیں مقبول فدا حسین کو سکھانے میں فیضی رحمین کا بڑا ہاتھ تھا، جو اپنی موت تک دنیا بھر میں انڈیا کی پہچان رہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ