تنہائی کے شکار جنوبی کوریا میں موت سے جڑے کاروباروں کا فروغ

جیسے جیسے جنوبی کوریا میں آبادی کے ڈھانچے میں بڑی تبدیلی آ رہی ہے، ویسے ویسے موت سے جڑے پیشوں میں کام کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔

جنوبی کوریا کے ساحلی شہر بوسان کی ایک یونیورسٹی کی کلاس روم میں قطار در قطار تابوت رکھے گئے ہیں، جو ایک تیزی سے بڑھتی عمر والی قوم میں مستقبل کے ’فیونرل ڈائریکٹرز‘ کی تربیت کے لیے استعمال کے لیے تیار ہیں۔

فیونرل ڈائریکٹرز وہ پیشہ ور افراد ہیں، جو میت کی تیاری، آخری رسومات اور تدفین کے انتظامات کرتے ہیں۔

جیسے جیسے جنوبی کوریا میں آبادی کے ڈھانچے میں بڑی تبدیلی آ رہی ہے، جہاں شرحِ پیدائش دنیا میں سب سے کم ہے اور تقریباً نصف آبادی 50 سال یا اس سے زیادہ عمر کی ہے، ویسے ویسے موت سے جڑے پیشوں میں کام کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔

بوسان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے طلبہ نے ایک انسانی ڈمی کو روایتی کوریائی کفن سے احتیاط سے ڈھانپا، کپڑے کو اس طرح ہموار کیا، جیسے کسی اصل جسم پر کیا جاتا ہے اور پھر آہستگی سے اسے تابوت میں رکھا۔

27 سالہ طالب علم جانگ جن یونگ نے کہا: ’ہمارے بڑھتی عمر والے اس معاشرے میں، مجھے لگا کہ اس طرح کے کام کی ڈیمانڈ بڑھے گی۔‘

ایک اور 23 سالہ طالب علم اِم سے جِن نے بتایا کہ وہ اپنی دادی کی وفات کے بعد اس شعبے میں آئے۔

انہوں نے بتایا: ’ان کے جنازے میں، میں نے دیکھا کہ فیونرل ڈائریکٹرز نے کس خوبصورتی سے انہیں آخری وداع کے لیے تیار کیا تھا۔ میں دل سے شکر گزار محسوس کر رہا تھا۔‘

’تصویروں کی مانند‘

جنوبی کوریا میں بڑی تعداد میں لوگ اب اکیلے رہائش پذیر ہیں اور تنہا ہی مر بھی رہے ہیں۔

ایک شخص پر مشتمل گھروں کی شرح اب ملک کے کل گھروں کا تقریباً 42 فیصد ہے، جو ایشیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔

اس کے نتیجے میں ایک نیا پیشہ ابھر کر سامنے آیا ہے، یعنی صفائی کرنے والے، جو اُن گھروں کو صاف کرنے کے لیے بلائے جاتے ہیں جہاں کے مکین، جو زیادہ تر اکیلے رہتے تھے، مر چکے ہوتے ہیں۔

سابق کلاسیکی موسیقار چو اُن سوک نے ایسے کئی گھروں کی صفائی کی ہے، جہاں لوگ مردہ حالت میں پائے گئے۔ بعض اوقات ان کی موت کو مہینوں گزر چکے ہوتے ہیں۔

چو کے بقول ان کے گھر ان کی ’تصویروں کی مانند‘ ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

47  سالہ چو اُن سوک نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ دل توڑ دینے والے مناظر دیکھ چکے ہیں۔ درجنوں صاف ستھری بند سوجو (شراب) کی بوتلیں اور تحائف کے ڈبّے جو کبھی کھولے ہی نہیں گئے۔

جنوبی کوریا ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ خودکشی کی شرح رکھتا ہے اور ان ’تنہا اموات‘ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنی جان خود لی۔

حال ہی میں، چو اُن سوک کو استعمال شدہ کار لیزنگ کمپنیوں سے بھی ان گاڑیوں کی صفائی کے لیے فون آنے لگے، جن میں گاہکوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا تھا۔

وہ ایک ایسا آلہ بھی تیار کر رہے ہیں جو ایسی ’نظر انداز شدہ اموات‘ کا پتہ لگانے میں مدد کرے گا، کیونکہ ان کے مطابق یہ ماحول کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اور کیڑوں کی افزائش بعض اوقات پورے گھروں کے سامان کی تلفی کا باعث بنتی ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’گرمیوں میں بدبو بہت تیزی سے پھیلتی ہے، ’اور کچھ بھی بچایا نہیں جا سکتا۔‘

حال ہی میں وفات پانے والی ایک خاتون، جو 80 کی دہائی کے آخر میں تھیں، کے گھر میں اب بھی پرانے ایئر کنڈیشنر، کاسمیٹکس کی بوتلیں، ایک پورٹیبل ٹوائلٹ اور دروازے کے پاس موجود چند چھڑیوں کی صورت میں ان کی زندگی کے آثار موجود تھے۔

’سب کچھ صاف کرنا پڑتا ہے‘

یہ کام بعض اوقات صرف صفائی تک محدود نہیں رہتا۔

کِم سوک جنگ نے ایک آنجہانی نغمہ نگار کا گھر صاف کیا تو وہاں انہیں کچھ ایسے گانے ملے، جو انہوں نے اپنے رشتہ داروں سے بھی شیئر نہیں کیے تھے۔

کِم سوک جنگ نے ان گانوں کو مرنے والے کے اہلِ خانہ کے لیے ایک نغمے میں ڈھال دیا۔

اسی طرح چو اُن سوک کو ایک ہائی سکول کی لڑکی بھی یاد ہے جو گھریلو تشدد سے بچ کر ایک گوسی وون (کرائے کے ایک چھوٹے سے کمرے) میں اکیلی رہتی تھی۔ وہ کمرہ پانچ مربع میٹر سے بھی کم تھا۔

چو مہینے میں ایک بار وہاں صفائی کے لیے آتے تھے۔

وہ لڑکی ڈپریشن میں مبتلا تھی اور خود اپنا کمرہ صاف نہیں کر سکتی تھی۔

سامان کے ڈھیر کے ساتھ سڑا ہوا کھانا بستر پر بکھرا ہوتا اور کمرے میں مکھیوں کی بہتات ہوتی، لیکن وہ ایک چھوٹے ڈبّے کا خاص خیال رکھتی اور اصرار کرتی کہ چو اسے کبھی نہ پھینکیں۔

ایک سال بعد، اس نے اسی کمرے میں اپنی جان لے لی۔

جب چو دوبارہ صفائی کے لیے آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ اس ڈبّے میں ایک ہیمسٹر (چوہے نما چھوٹا پالتو جانور) رہ رہا تھا۔

اس کے پاس ہی اس کا گٹار رکھی تھا، کیونکہ اس کا خواب تھا کہ وہ موسیقار بنے۔

چو اُن سوک نے کہا: ’جب میں نے اس ہیمسٹر کو دیکھا تو میرے ذہن میں بس ایک ہی بات آئی کہ مجھے اسے بچانا اور زندہ رکھنا ہے۔‘

تجربہ کار فیونرل ڈائریکٹر کِم دو نیون کا کہنا تھا کہ اب ان کے پاس 20 سال کے نوجوان بھرتی ہونے آ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’جب لوگ ساتھ رہتے ہیں تو چیزیں بانٹتے ہی، حتیٰ کہ اگر ایک شخص مر جائے تو اس کی کچھ چیزیں باقی رہ جاتی ہیں، لیکن جب کوئی تنہا مر جاتا ہے، تو سب کچھ صاف کرنا پڑتا ہے۔‘

بوسان کی کلاس میں موجود اِم سے جِن نے اپنے منتخب کیے گئے پیشے کے بارے میں کچھ خوف کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: ’میں ڈرتا ہوں۔‘

بقول اِم: ’چاہے آپ کتنا ہی تیار ہوں، ایک مردہ شخص کا سامنا کرنا ہمیشہ خوفناک ہوتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا