کینیڈا کی وزیر خارجہ انیتا انند نے یکم نومبر کو ایکس پر جاری بیان میں بتایا کہ ہماری سفارتی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان نے کینیڈا سے کینولا (سرسوں کی ایک ہائبرڈ قسم) کی درآمد پر عائد پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے لکھا: ’اس اقدام سے کینولا سے وابستہ ہزاروں کینیڈین کسانوں کو فائدہ پہنچے گا اور یہ شعبہ مزید ترقی کرے گا۔‘
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے کینیڈا کے کینولا بیج پر پابندی کیوں لگائی گئی تھی، اس کی وجوہات کیا تھیں اور اب دوبارہ درآمد کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے؟ آئیے اس پر نظر ڈالتے ہیں۔
پابندی ہٹانے کا فیصلہ 28 اکتوبر کو پاکستان کے وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ رانا تنویر حسین اور پاکستان میں کینیڈا کے ہائی کمشنر طارق عل خان کے درمیان ملاقات میں کیا گیا۔
وزارت فوڈ سکیورٹی سے جاری بیان کے مطابق رانا تنویر حسین نے کہا کہ پاکستان پام آئل کے بجائے کینولا اور سویابین تیل کی جانب منتقل ہو رہا ہے، جو صحت کے لیے زیادہ مفید ہے اور اسی مقصد کے تحت کام جاری ہے۔
کینیڈین کینولا بیج پر پابندی کے حوالے سے رانا تنویر حسین نے بتایا کہ وزارت ماحولیات کی جانب سے کینیڈا سے کینولا کی درآمد سے متعلق نوٹیفکیشن جاری ہونا باقی ہے۔ نوٹیفکیشن کے بعد دیگر 43 جینیاتی مواد کے ساتھ کینولا کو بھی منظوری مل جائے گی۔
بیان کے مطابق کینیڈا نے پاکستان کو بیج کی لیبارٹری جانچ کی اجازت بھی دی ہے تاکہ بائیو سیفٹی پروٹوکول کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔ اس مقصد کے لیے پاکستانی وفد کو کینیڈا کے دورے کی دعوت بھی دی گئی ہے۔
درآمد پر پابندی کیوں اور کب لگی؟
2022 سے قبل پاکستان سالانہ تقریباً 10 لاکھ ٹن کینولا بیج کینیڈا سے درآمد کرتا تھا، جو کینیڈا کی مجموعی برآمدات کا تقریباً تین فیصد تھا۔
انڈو بحراالکاہل کے خطے میں چین اور جاپان کے بعد پاکستان کینیڈا سے کینولا درآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک تھا، تاہم نومبر 2022 میں یہ درآمد مکمل طور پر بند ہو گئی۔
پابندی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پاکستانی بائیو سیفٹی قوانین میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ (جی ایم او) بیج کے حوالے سے کوئی واضح شق موجود نہیں تھی۔ اس کے بعد بحث چھڑ گئی کہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیج انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کئی دہائیوں سے کینیڈا سے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ کینولا بیج درآمد کرتا آ رہا تھا، مگر بندرگاہوں پر اس کی کلیئرنس عام بیج کے طور پر کی جاتی رہی۔ یہی خلا 2022 میں تنازع کا باعث بنا۔
امریکہ کے ایگری کلچر ڈیپارٹمنٹ کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان نے اس وقت پابندی کی وجہ یہ بتائی کہ درآمد کنندگان کے پاس جی ایم او بیج کی درآمد کا لائسنس موجود نہیں۔ تاہم اُس وقت بائیو سیفٹی قوانین میں ایسے لائسنس کے حصول کا کوئی باقاعدہ طریقہ موجود ہی نہیں تھا۔
مارچ 2023 میں پاکستان نے قوانین میں ترمیم کی اور جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیج کی درآمد کے لیے لائسنس حاصل کرنے کا نظام متعارف کرایا۔
جی ایم او بیج کیا ہے؟
خیبر پختونخوا کے ایگری کلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے آؤٹ ریچ شعبے کے سینیئر ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالباری، جو جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیج کے ماہر ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کینولا دراصل سرسوں کی ایک قسم ہے۔
اس کے تیل میں دس اجزاء پائے جاتے ہیں جن میں ایک کو ایروسک ایسڈ اور دوسرے کو گلوکوسینولیٹس کہا جاتا ہے۔
روایتی یا دیسی سرسوں میں ایروسک ایسڈ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، جو دل کی صحت کے لیے نقصان دہ سمجھی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے کینیڈا، امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں سرسوں کے تیل کو کھانے میں استعمال کرنے پر پابندی ہے۔
کینیڈا نے اس بیج کو جینیاتی طور پر تبدیل کر کے ایروسک ایسڈ کی مقدار انتہائی کم کر دی اور اسی بدلاؤ کے بعد اسے کینیڈین آئل لو ایسڈ (Canadian Oil, Low Acid) یعنی کینولا کا نام دیا گیا، جو نسبتاً صحت بخش سمجھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالباری کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر کوکنگ کے لیے پام آئل استعمال ہوتا ہے، جس کا 90 فیصد ہم ملائشیا اور انڈونیشیا سے درآمد کرتے ہیں جبکہ کینولا بیج بھی اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کینولا دنیا میں ویجیٹیبل آئل کا تیسرا اور پروٹین خوراک کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔
ان کے مطابق پاکستان میں پام آئل کی درآمد سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھتا ہے کیونکہ مقامی پیداوار کم ہے۔ پیداوار کی کمی کی وجوہات میں جدید ٹیکنالوجی کی کمی، اور کیڑوں کے ناقص تدارک جیسے مسائل شامل ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ایروسک ایسڈ کی مقدار کم کرنے اور دیگر خامیوں کو دور کرنے کے لیے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیج استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بیج لیبارٹری میں تیار کیا جاتا ہے اور اس کا ڈی این اے تبدیل کیا جاتا ہے۔
کیا جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیج نقصان دہ ہے؟
ڈاکٹر عبدالباری کے مطابق محققین کے درمیان اس پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ عمومی طور پر جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیج غذائیت کے لحاظ سے بہتر اور پیداوار کے لحاظ سے زیادہ مؤثر ہیں، تاہم کچھ ماہرین کو خدشہ ہے کہ مستقبل میں ان سے ماحولیاتی یا حیاتیاتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ یہ بیج جڑی بوٹیوں اور کیڑوں کے خلاف بہتر مزاحمت پیدا کرتے ہیں، لیکن اسی مزاحمت کے نتیجے میں نئی اقسام کی جڑی بوٹیاں بھی جنم لے سکتی ہیں، جس سے بایو ڈائیورسٹی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
ان کے مطابق ایک اور خدشہ یہ ہے کہ اگر جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیج عام بیج کے ساتھ پولینیشن کرے تو غیر ضروری نئی اقسام کے پودے پیدا ہو سکتے ہیں، جو حیاتیاتی تنوع کے لیے نقصان دہ ہیں۔
دنیا میں جی ایم او مصنوعات پر پابندیاں
امریکہ کے غیر سرکاری ادارے جینیٹک لیٹریسی پراجیکٹ کے مطابق دنیا کے 29 ممالک میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلیں اگائی جاتی ہیں، تاہم کئی ممالک نے ان پر مکمل یا جزوی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
ان ممالک میں آسٹریلیا، سوئٹزرلینڈ، آسٹریا، چین، انڈیا، فرانس، جرمنی، ہنگری، یونان، آذربائیجان، بلغاریا، بھوٹان، سائپرس، ڈنمارک، ایکواڈور، کرغستان، مالٹا، سعودی عرب، ترکی، یوکرائن، وینزویلا، پولینڈ، اٹلی، میکسیکو اور روس شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بعض ممالک میں پابندیاں صرف مخصوص فصلوں پر لاگو ہیں اور بعض نے درآمد کی اجازت دے رکھی ہے، لیکن کاشت پر پابندی برقرار ہے۔
مطالعے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان پابندیوں کی وجوہات زیادہ تر سیاسی اور معاشی ہیں، کیونکہ آزاد سائنسی ادارے اب تک جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خوراک کو انسانی صحت کے لیے محفوظ قرار دے چکے ہیں۔