'سیاست میں ملوث فوجیوں کے خلاف کارروائی کی جائے'

ریاست کو ہمیشہ غیر جانبدار رہ کر کام کرنا ہوگا، سپریم کورٹ فیصلہ

تحریک لبیک کے دھرنے کے اختتام پر شرکا میں پیسے بانٹے گیے تھے۔ فائل فوٹو 

فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ نے احکامات جاری کیے ہیں کہ حکومت پاکستان وزارت دفاع، آرمی چیف، بری اور بحری افوج کے چیفس کے ذریعے افواج کے ان افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز کرے جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی کاموں میں حصہ لیا۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے 43 صفحات پر مبنی فیصلہ جاری کیا، جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے اور فیصلہ بھی انھی نے تحریر کیا۔ 

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا جسے نومبر 2018 میں محفوظ کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید احکامات

  • عوام کی آمد و رفت روکنے والوں اور املک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے
  • تمام سیاسی جماعتوں کو قانون کے تحت اپنے مالی ذرائع کی تفصیلات دینا ہوں گی
  • ریاست کو ہمیشہ خیر جانبدار رہ کر کام کرنا ہو گا
  • وہ فرد جو فتوے کے ذریعے کسی دوسرے فرد کو خطرے میں ڈالے اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے
  • ایسے ٹی وی چینل جو نفرت اور شر انگیزی کا پرچار کرتے ہیں ان کے خلاف پیمرا قوانین کے تحت کارروائی ہونی چاہیے
  • تمام انٹیلی جنس ایجنسیاں اور آئی ایس پی آر اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ وہ کسی کی آزادی اظہار رائے میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ شفافیت کو برقرار رکھنے اور قانون کی حکرانی کے لیے مناسب ہے کہ ایسا قانون بنائے جائے جس سے ان اداروں کے دائرہ اختیار کا تعین ہو سکے۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں احکامات کے علاوہ کیس سے جڑے ہوئے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔

فوج اور آئی ایس آئی کا کردار

سپریم کورٹ کے فیصلے میں اداروں کے کردار کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ

  • جب ادارے طے کردہ حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں اور احتساب کا موثر نظام ہوتا ہے تو عوام محفوظ رہتے ہیں اور ریاست پھلتی پھولتی ہے۔ مسئلہ اپنے آپ کو خودساختہ مسیحا سمجھنے والوں سے شروع ہوتا ہے۔ انہیں یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کی ہے
  • جو لوگ نفرت اور تشدد پھیلاتے ہیں انہیں ریاست اور اس کی پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ڈرنا چاہیے
  • اس تاثر کو ختم نہیں کیا گیا کہ آئی ایس آئی سیاست یا ایسے معاملات جن سے اس کا تعلق نہیں میں مداخلت نہیں کرتی۔ تحریک لبیک کے دھرنے کے شرکا کو وردی میں موجود افراد کی جانب سے پیسے بانٹے جانے سے ان کے ملوث ہونے کے تاثر کو مزید قوت ملی
  • پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل بھی سیاسی معاملات پر خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ پاک افواج بشمول آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس پی آر پاکستان اور پاکستانیوں کی خدمت کرتے ہیں اور ان کے بارے میں یہ تاثر نہیں پھیلنا چاہیے کہ وہ کیسی سیاسی جماعت یا گروہ یا سیاستدان کی حمایت کرتے ہیں۔ 
  • اگر افواج کا کوئی بھی افسر میڈیا پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے تو وہ افواج کے وقار اور پیشہ وارانہ صلاحیت کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔
  • جب آئی ایس آئی سے پوچھا گیا کہ ان کے پاس تحریک لبیک کے مالی ذرائع کی تفصیلات کیوں نہیں ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ تشدد پھیلانے والی جماعتوں کے مالی معاملات پر نظر نہیں رکھ سکتے مگر انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ان مالی معاملات پر نظر رکھنے کی اجازت ہے

ریاست کی ناکامی

ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے تحریک لبیک کی قیادت کو دھرنا نہ دینے اور اجازت لینے کے خط پر عمل نہ کرنے پر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حکومتی احکامات کی خلاف ورزی کرنے پر تحریک لیبک کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکومت، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بارے میں کہا کہ ان اداروں نے ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے نہ ہونے کے برابر منصوبہ بندی کی۔ اور آج بھی ایسی صورتحال دیکھنے میں آتی ہے۔

آرٹیکل 184(3) اور سپریم کورٹ اختیار کا دائرہ کار

فیصلے میں سپریم کورٹ کے عوامی مفاد میں سوموٹو نوٹس لینے کے اختیار پر بھی فیصلہ دیا ہے۔ فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ صرف ان معاملات میں ازخود نوٹس لے سکتی ہے جہاں معاملہ عوامی مفاد عامہ اور بنیادی حقوق کے نفاذ کا ہو۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کا بنیادی مقصد عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے اور اس  شق سے متعلق کیس میں مکمل احتیاط برتنی چاہیے کیونکہ آرٹیکل 184(3) کے کیس میں اپیل کرنے کا حق موجود نہیں۔

12 مئی اور تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے

فیصلے میں 12 مئی 2007 اور تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے 2014 کے دھرنوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

فیصلے میں فاضل ججز نے لکھا ہے کے تحریک لبیک کی قیادت نے دیکھا ہو گا کہ 12 مئی کو دن دہاڑے قتل عام کرنے کے باوجود مرکزی کردار کیفر کردار تک نہیں پہنچے۔ اسی طرح 2014 میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک دھرنے کے باعث جوڈیشل کمیشن بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے اور جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد بھی تحریک انصاف نے نہ تو معافی مانگی اور نہ ہی جس جگہ پر دھرنا دیا اس کی صفائی کا خرچہ اٹھایا بلکہ انہیں مفت کی تشہیر ملی۔

جسٹس عیسی نے کہا کہ 12 مئی کے کردار آج اہم سرکاری عہدوں پر براجمان ہیں جس سے غلط مثال پڑی۔ انہیں سزا نہ دینے سے تشدد کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے رجحان کو تقویت ملی۔

دیگر سیاسی جماعتوں کا کردار

سپریم کورٹ کے فیصلے میں درج ہے کہ پارلیمان کی طرف سے انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی کے اعلامیہ میں کی گئی تبدیلی کو واپس لینے کے باوجود تحریک لبیک پاکستان نے احتجاج جاری رکھا۔ جن افراد کی اس وقت کی حکومت کے خلاف شکایت تھی انہوں نے بھی احتجاج میں اپنا حصہ ڈالا۔ آئی ایس آئی کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق حمایت کرنے والوں میں عوامی مسلم لیگ کے چئیرمین شیخ رشید احمد، پاکستان مسلم لیگ ضیا کے اعجاز الحق، پیپلز پارٹی کے شیخ حمید اور تحریک انصاف کے علما ونگ کی طرف سے آڈیو پیغام بھی جاری کیا گیا۔

غیر ملکی فنڈنگ اور الیکشن کمیشن کا کردار

فیصلے میں الیکشن کمیشن کے کردار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے فیصلے میں درج ہے کہ جب تحریک لبیک سے الیکشن کمیشن نے اس کی فنڈنگ پر تفصیلات مانگی تو کوئی تفصیلات فراہم نہ کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قانون کو موم کی ناک کی طرح موڑا جا سکتا ہے۔

فارن فنڈنگ پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ کہ قانون کے مطابق اگر کوئی جماعت بیرون ملک سے فنڈنگ لیتی ہے یا اس طرح کا کام کرتی ہے جس سے پاکستان کی سالمیت کو خطرہ ہو تو الیکشن کمیشن وفاقی حکومت کو اس جماعت کے خلاف ریفرنس بھیج سکتی ہے۔ اور وفاقی حکومت اس جماعت کو غیر ملکی فنڈنگ لینے والی جماعت قرار دے سکتی ہے جس کے پندرہ دن کے اندر سپریم کورٹ کو یہ معاملے بھجوایا جائے گا اور اگر سپریم کورٹ بھی وفاقی حکومت کے فیصلے کی توثیق کر دے تو سیاسی جماعت کو تحلیل کر دیا جائے گا۔

فارن فنڈنگ پر سپریم کورٹ کے مندرجات اس لیے بھی اہم ہیں کیونکہ حکمران جماعت تحریک انصاف کے خلاف بھی الیکشن کمیشن میں نومبر 2014 سے فارن فنڈنگ کے حوالے سے کیس چل رہا ہے۔  

آزادی اظہار رائے اور میڈیا کا کردار

سپریم کورٹ کے فیصلے میں جہاں میڈیا کے کچھ حلقوں پر تنقید کی گئی ہے وہیں میڈیا پر قدغن پر بھی بات کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'چینل 92' تحریک لبیک کے دھرنے کے شرکا کو کھانا فراہم کرتا رہا مگر پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے چینل کے خلاف لائسنس کی شرائط کی خلاف ورزی پر کوئی کارروائی نہیں کی۔

پیمرا پر دیگر میڈیا چینلز کی اظہار رائے کی آزادی سلب ہونے پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ فیصلے میں لکھا گیا کہ 'ڈان' اور 'جیو' کی نشریات کو کنٹونمنٹ اور ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی کے علاقوں میں بند کیا گیا جس کی تصدیق پیمرا نے خود کی مگر پیمرا نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ پیمرا کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے لائسنس یافتہ چینلز کے حقوق کی حفاظت کرے اور ذمہ دار کیبل آپریٹرز کے خلاف کارروائی کرے۔

جسٹس عیسی نے فیصلے میں لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ 'ڈان اخبار، جس کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح تھے، کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا۔ جسٹس عیسی نے مزید لکھا کہ کھلے عام اور پس پردہ سینسر شپ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ آزاد خیالات کے پرچار کو روکنا، مخصوص بیانیے کے ترویج کی ترغیب، میڈیا اداروں میں یہ فیصلے کرنا کہ کس کو نکالنا ہے اور کس کو بھرتی کرنا ہے اور خود ساز سینسرشپ کے احکامات غیر قانونی فعل ہیں۔ نہ حکومت، نہ کوئی ادارہ اور نہ ہی کوئی انٹیلی جنس ایجنسی صحافتی آزادی اور آزادی اظہار رائے کو سلب کر سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے کچھ 'بے اصول' ٹاک شو میزبانوں کا نام لیے بغیر کہا کہ انہوں نے اپنے پروگراموں کے ذریعے عوام کے جذبات کو ابھارا۔

احتجاج کا حق

جسٹس قاضی فائز عیسی نے فیصلے میں لکھا ہے کہ اگرچہ آئین میں احتجاج کرنے کا کوئی مخصوص حق درج نہیں مگر جمہوریت میں اسے ایک حق گردانا جاتا ہے اور پاکستان کا حصول بھی انہیں جمہوری طریقوں سے کیا گیا۔ فیصلے میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جمہوری عمل کے لیے لوگ اکٹھے تو ہوسکتے ہیں مگر اکٹھے ہو کر ایک قانونی حکومت کو گرا نہیں سکتے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان