نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

ہماری مانيے تو ابھی بھی کچھ زیادہ نہيں بگڑا۔ بگڑتے کے اس منہ زور گھوڑے کو لگام ڈالی جا سکتی ہے۔ بس ذرا سا رخ اور سمت کی تبدیلی درکار ہے وگرنہ کہيں ایسا نہ ہو کہ گھوڑا رہے نہ سوار اور نہ شہہ سواری۔

حالات بگڑ رہے ہیں – معاملات سلجھ نہیں رہے – گتھی کہاں سے الجھی یہ تو سب ہی کو معلوم ہے لیکن ڈور کا کوئی سرا ہاتھ آ کے نہيں دے رہا – وزیراعظم عمران خان کے لیے چیلنجز خود رو کھمبیوں کی طرح اگتے اور پھلتے جا رہے ہیں جو زہریلے خطرناک بھی ثابت ہو سکتے ہيں۔

سب سے بڑا چیلبج تو مولانا فضل الرحمان کا اسلام آباد تک مارچ اور دھرنا ہے۔ اس وقت تک تو حکومتی کمیٹی اور اپوزیشن کے درمیان جتنے بھی بظاہر اور خفیہ رابطے ہوئے ہیں سب ناکام رہے ہیں۔ حکومتی کمیٹی کے ہاتھ میں مولانا فضل الرحمن کو دینے کو کچھ نہیں جبکہ مولانا ہاتھ کے ہاتھ وزیر اعظم کے استعفے سے کم پر بات کرنے کو راضی نہيں۔ مولانا تو اپوزیشن کو ‎ساتھ ملا کر حکومت کو مطالبات کی ایسی بند گلی میں دھکیل لائے ہیں جہاں سے واپس کسی کے لیے بھی ممکن نہیں رہا۔ جو پیچھے مڑ کر دیکھے گا وہی پتھر کا ہو جائے گا۔

فی الحال آگے ہی بڑھ کر یا تو دیوار گرا دینا یا اپنا سر ہی پھوڑ لینا دونوں فریقین کے لیے آپشن میں شامل ہے۔ مذاکرات محض اتمام حجت ہے نہ ان کا کوئی نتیجہ نکلنا ہے – نہ یہ کامیاب ہونے ہیں – تمام فریقین کے ليے کسی بھی آخری حد تک جانے کی صورت میں یہ ایک فیس سیونگ ہوگی کہ ہم نے کوشش تو کی – وزیر اعظم بظاہر ان دیکھے اعتماد پر قائم ہیں لیکن حکومت کی حرکات و اقدامات کو دیکھا جائے تو اندر ہی اندر گھبراہٹ بڑھ رہی ہے – پندرہ لاکھ کو چھوڑيے مولانا اگر ایک لاکھ بندہ ہی اسلام آباد کے باہر تک لے آئے تو آپ کیسے روکيں کے – اسلام آباد تک پہنچنا اب مولانا کے لیے کوئي مسئلہ نہیں رہا – اندر آنے سے روکنے کے ليے طاقت کے استعمال کا مشورہ کوئی نادان دوست ہی حکومت کو دے سکتا ہے۔

مولانا کو یا ان کے قریبی ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا تو بھی حکومت اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی نہیں بلکہ کلہاڑا چلائے گی – استعفے کی تحریک کو مزید ہوا ملے گی – کارکن مشتعل ہوگا پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے – ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا کارکن پہلے ہی اشتعال میں ہے – نواز شریف اور آصف زرداری کی صحت کے معاملات کو جس طرح مس ہینڈل کیا گیا ہے اس نے بیٹھے بٹھائے حکومت کے لیے چیلینجز میں اضافہ کر دیا ہے۔ جیل میں تو دونوں رہنما ہیں ہی، مقدمات بھگت رہے ہیں، فی الحال جلد یا بدیر ضمانت کا بھی کوئی امکان نظر نہيں آتا، ایسے میں نہ جانے کون نادان دوست مشورے دے رہا ہے کہ حکومت صحت جیسے انسانی مسئلے کو بھی اپنی جانب نرم گوشہ بیدار کرنے کے لیے خاطر میں نہ لا سکی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دونوں سیاسی قیدیوں کو اگر ہمہ وقت اور بروقت طبّی سہولتیں خاندان والوں کی تسلی کے مطابق مہیا رہيں تو حکومت کے غیر ضروری مسائل میں کمی ہی آئے گی اور سیاسی مخالفین میں نہ صرف نرم گوشہ بیدار ہوگا بلکہ غلط یا درست اس تاثر کو بھی ذائل کرنے ميں مدد ملے گی کہ حکومت ازخود سیاسی مخالفین کو نشانہ بنا رہی ہے۔

معیشت کی صحت کی حالت بھی دگرگوں ہے۔ ملک کے معاشی پلیٹ لیٹس بھی گرتے جا رہے ہیں اور حالات سنبھلنے کے کوئی آثار قریب قریب نظر نہيں آتے۔ اب تو عالمی جریدے بھی صورت حال کی سنگینی بیان کرتے ہوئے نظر آ تے ہيں۔ ناتواں معیشت کے کندھوں پر بوجھ اور سر پر لٹکتی تلوار آن پڑی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی اگلے سال فروری تک کی آخری مہلت کی۔ چار ماہ میں 27 نکات یا مطالبات کس طرح سے پورے کيے جايں گے یہ ایک پہاڑ جتنا چیلنج ہے۔

کشمیر تاحال سلگ رہا ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لوگوں کے دل اور جذبات مجروح ہیں مایوس ہیں۔ آئے روز ریلی نکلتی ہے جلوس ہوتا ہے مقامی پولیس کےساتھ جھڑپ ہوتی ہے۔ ملکی میڈیا تو دیکھا نہیں سکتا لیکن سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی میڈیا تک ضرور پہنچ جاتا ہے۔

لآئن آف کنٹرول پر بھارت نے غیراعلانیہ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ کشمیر ہر گذرتے دن کے ساتھ پاکستان اور بھارت کے درمیان الاؤ کی طرح دہکتا بھڑکتا جا رہا ہے۔ تقریر کے بعد اگلی تدبیر کے طور پر تاحال جمعہ وار سائرن بجانے پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے۔ حکومت کی کشمیر پر آئندہ حکمت عملی کیا ہے کچھ واضح نہیں۔ نہ حکومت نے کشمیر مسئلے پر اپوزیشن کے ساتھ کوئی آل پارٹیز کی، نہ ہی اس کے ليے تیار نظر آتی ہے۔ تناؤ اکھڑاؤ تو حدوں تک چھو رہا ہے۔ پارلیمان کا اجلاس ہونا ہے لیکن کشمیر اور سنگین ملکی حالات پر سنجیدہ سیر حاصل بحث کے بجائے یہی دھڑکہ لگا ہے کہ اجلاس بھی ایک دوسرے پر الزام تراشی اور ہنگامہ خیزی کی نذر ہوتے رہیں گے اور عوامی مسئل کا انبار جوں کا توں موجود رہے گا۔

قانون سازی ویسے ہی آرڈینینس کے سپرد ہو چکی ہے۔ چیلینجز خود رو کھمبیوں کی طرح اگتے اور پھیلتے ہی جا رہے ہیں۔ نوشتئہ دیوار صاف صاف لکھا نظر آ رہا ہے جسےسمجھنے کے لیے رکنا ہو گا، ٹھرنا ہو گا، سنبھلنا ہو گا، سنبھل سنبھل کر پڑھنا ہو گا۔

گذشتہ ایک سال میں تبدیلی کا گھوڑا ایسے تیزی سے دوڑا کے اب نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔ لیکن ہماری مانيے تو ابھی بھی کچھ زیادہ نہيں بگڑا۔ بگڑتے کے اس منہ زور گھوڑے کو لگام ڈالی جا سکتی ہے۔ بس ذرا سا رخ اور سمت کی تبدیلی درکار ہے وگرنہ کہيں ایسا نہ ہو کہ گھوڑا رہے نہ  سوار اور نہ شہہ سواری۔ رہے نام اللّہ کا۔۔۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ