برطانیہ میں مالی مشکلات کے شکار طلبہ جسم فروشی پر مجبور

ایک سروے کے مطابق گذشتہ دو سالوں میں ایسے طلبہ کی تعداد دگنی ہو گئی ہے جو زوز مرہ ضروریات کے بڑھتے خرچ اور مالی مشکلات کے باعث سیکس ورک کرنے پر مجبور ہیں۔

رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ معاشی مدد میں کمی کے باعث برطانیہ بھر کی یونیورسٹیز میں یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے (اے پی)

برطانیہ میں زوز مرہ ضروریات کے بڑھتے خرچ اور مالی مشکلات کا سامنا کرتے طالب علم سیکس ورک کی جانب راغب ہو رہے ہیں اور گذشتہ دو سالوں میں ایسے طالب علموں کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔

ایک سروے کے مطابق ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے طالب علم شوگر ڈیٹنگ (اپنے سے بڑی عمر کے افراد سے رومانوی یا جنسی تعلقات رکھنا) اور پیسوں کے لیے سیکس جیسے کام کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانیہ میں زیر تعلیم 25 میں سے ایک طالب علم (چار فیصد) نے ’اڈلٹ ورک‘ کرنے کا اعتراف کیا ہے جس میں شہوت انگیزی اور عریانی شامل ہے۔ یہ تعداد 2017 کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہے۔

پیسوں کے استعمال کے بارے میں مشورہ دینے والی ویب سائٹ ’سیو دا سٹوڈنٹ‘ کی جانب سے کیے گئے اس سروے میں تین ہزار تین سو زیر تعلیم طالب علموں نے حصہ لیا جس کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اکثر طلبہ پیسوں کے لیے اپنی عریاں تصاویر یا استعمال شدہ انڈرویئر فروخت کرتے ہیں۔

رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ معاشی مدد میں کمی کے باعث برطانیہ بھر کی یونیورسٹیوں میں یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔

سروے کے مطابق طلبہ کو روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اوسطاً 807 پاؤنڈ ماہانہ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ گذشتہ برس یعنی 2018 میں طلبہ کا اوسطاً ماہانہ خرچہ 770 پاؤنڈ تھا۔

یارک سینٹ جان یونیورسٹی میں دوسرے سال کی ایک طالبہ نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’دی انڈپینڈنٹ‘ کو بتایا کہ وہ جسم فروشی پر مجبور ہو گئی تھیں کیونکہ ’پیسوں کی کمی ان کے لیے بڑا مسٔلہ تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ وہ مردوں سے ملتی تھیں، ان کے ساتھ ڈیٹ پر جاتی تھیں اور پیسوں کے لیے جنسی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتی تھیں۔ انہوں نے اضافی پیسوں کے لیے سنیپ چیٹ کے ذریعے اپنی عریاں تصاویر بھی فروخت کیں۔

انہوں نے کہا: ’مجھے پیسوں کی ضرورت تھی، اس لیے نہیں کہ میں انہیں عیش و عشرت کی چیزوں پر خرچ کروں، بلکہ اس لیے کہ میں زندہ رہ سکوں۔ کھانا اور نصاب کی کتابیں خریدنے کے لیے اور اپنے بل ادا کرنے کے لیے۔‘

سیو دا سٹوڈنٹ کے ماہر جیک بٹلر نے کہا: ’دو سالوں میں جسم فروشی میں ملوث طلبہ کی تعداد کا دگنا ہو جانا خطرے کی گھنٹی اور انتہائی تشویش ناک ہے، لیکن یہ سب کچھ غیر متوقع نہیں ہے خاص طور پر جب طلبہ کو مالی مشکلات کا سامنا ہو۔‘

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ طلبہ کو دیا جانے والا مینٹینس لون ان کی بنیادی ضروریات اور اخراجات سے 267 پاؤنڈ تک کم پڑ جاتا ہے۔

بٹلر نے مزید کہا: ’مینٹینس لون خاندان کے مالی حالات دیکھ کر دیے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت والدین سے توقع کرتی ہے کہ وہ اس فرق کو پورا کریں۔ لیکن زیادہ تر والدین اس بارے میں نہیں جان پاتے اور ان کے بچے صرف اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے کئی اقدامات پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‘

رواں سال مئی میں سابق بینکر فلپ آگر کی زیرصدارت اعلیٰ تعلیم کے لیے مالی اعانت کے بارے میں حکومتی اقدامات کا جائزہ لیا گیا جس میں کم آمدنی والے طلبہ کے لیے 2016 میں ختم کی گئی گرانٹ کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

حکومت نے ابھی تک اس جائزے میں دی گئی تجاویز کا باقاعدہ جواب نہیں دیا ہے۔

نیشنل یونین آف سٹوڈنٹس (این یو ایس) کی خواتین طلبہ کی سربراہ ریچل واٹرز نے کہا: ’ہم پوری طرح سے واقف ہیں کہ برطانیہ میں رہائش اور تعلیم حاصل کرنے کی لاگت سے طالبات جسم فروشی پر مجبور ہو رہی ہے اور یہ غربت اور مزدوروں کے حقوق کے جیسا ہی اہم مسئلہ ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہم طلبہ کے جسم فروشی کا انتخاب کرنے کے فیصلے کا احترام کرتے آئے ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کام دیگر ملازمتوں کے مقابلے میں طلبہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے موزوں ہو سکتا ہے، تاہم یہ ضروری ہے کہ ہم اس سے وابستہ بدنامی کو ختم کر دیں جو طلبہ کو ضرورت کے وقت اپنے اداروں، خاندان اور دوستوں، صحت عامہ اور دیگر خدمات کے اداروں سے مدد حاصل کرنے سے روکتی ہے۔‘

ریچل نے کہا: ’ہم جانتے ہیں کہ جسم فروشی کو جرم قرار دینے سے اسے روکا نہیں جا سکتا بلکہ یہ اس کو مزید پوشیدہ بنا دیتا ہے جس سے طلبہ مزید غربت اور تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل