شادی کے بعد سب کچھ بدل کیوں جاتا ہے؟

لڑکیاں بدل جاتی ہیں۔اب وہ لڑکیاں کسی کی بیوی، بیٹی یا بہن لگنے لگتی ہیں۔ مگر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیونکہ اب آپ کی بھی بیوی ہے، لہٰذا دوسروں کی بیوی کی حرمت کا احساس ہونے لگتا ہے۔

رویے میں کیا تبدیلی آئے گی؟ آپ ٹھنڈے پڑ جائیں گے، یعنی شخصیت میں ایک ٹھہراؤ آئے گا جو اپنے ساتھ بلا کا ضبط لائے گا۔ یہ ضبط کس کام آئے گا؟ (پکسابے)

مجھے اپنی پشمانی اور پریشانی کی وجہ معلوم تھی، مگر ایک دوست کے دریافت کرنے پر میں نے اسے کہا ’سب ٹھیک ہے،‘ بلکہ بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے الحمداللہ بھی کہا۔

وہ میرے چہرے پر پریشانی پڑھ چکا تھا۔ اور میں اس سوچ میں جا چکا تھا کہ میں نے دوست سے جھوٹ کیوں بولا اور اسے وجہ کیوں نہ بتائی؟ میرے پاس میرے ہی اس سوال کا جواب تو تھا مگر میں پشیمان تھا۔ پشیمانی، احساس ندامت، پچھتاوا، ملامت، افسوس اور شرمندگی۔ یہ سب کیفیتیں ایک ساتھ مجھ پر طاری تھیں اور میں ماضی کو یاد کر کے شرمندہ تھا۔

یوں سمجھ لیجیے کہ میں ہاتھوں کی لگائی اب دانتوں سے کھول رہا تھا۔ میرے فون کی سکرین پر الفاظ ’ان فرینڈ/بلاک،‘ مجھے ندامت کے کڑوے گھونٹ بھر بھر کے پلا رہے تھے۔ میں یہ کڑواہٹ، اپنے احساس ندامت کو کم کرنے کے لیے خوشی سے برداشت کر رہا تھا۔ میں بدل چکا تھا، سب بدل چکا تھا۔ ’شادی کے بعد بہت کچھ بد ل جاتا ہے،‘ میرے دوست نے میری پریشانی پر حتمی ردعمل دیتے ہوے قہقہ بلند کیا۔

آئیے بتاتا ہوں، کیا کیا بدل جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لڑکیاں بدل جاتی ہیں۔اب وہ لڑکیاں کسی کی بیوی، بیٹی یا بہن لگنے لگتی ہیں۔ مگر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیوں کہ اب آپ کی بھی بیوی ہے، لہٰذا دوسروں کی بیوی کی حرمت کا احساس ہونے لگتا ہے۔ شادی کے بعد آپ کی بھی پھول سی بیٹی ہو گی، تو دوسروں کی بیٹیوں کی آبرو کی اہمیت بھی سمجھ میں آنے لگتی ہے۔

لیکن بہنیں تو شادی سے پہلے بھی ہوتی ہیں، تب دوسروں کی بہنوں کا احساس کیوں نہیں ہوتا؟ تب ہم اندھے ہوتے ہیں، ہمیں اپنا گھر محفوظ لگتا ہے، جیسے حساس چیز کو شیشے کے بجاے لوہے کے ڈبے میں رکھ کر ہم محفوظ سمجھتے ہیں۔ ہمیں یہ غلط فہمی رہتی ہے کہ ہماری عزت لوہے جبکہ دوسروں کی شیشیے کے ڈبے میں ہے۔ ہم اپنے لوہے کے گھر میں بیٹھ کر، دوسروں کے شیشے کے گھر پر پتھر اچھالتے ہیں، اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے لوہے کو بھی زنگ لگ سکتا ہے۔ جبکہ یہ زنگ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی صورت ہمارے گھر کو لگ چکا ہوتا ہے۔

کچھ شادی شدہ تجربہ کار دوست سوچ رہے ہوں گے کہ ان کی بیوی، بیٹی سب ہیں پھر بھی وہ کامیابی سے دوسروں کے شیشے کے گھر پر پتھر برسا لیتے ہیں۔ تو یہ جان لو دوست ’تم اندھیرے میں ہو،‘ ’تمھارے گھر کو زنگ لگ چکا ہے،‘ اور ’تمہارے کردار کو دیمک چاٹ چکی ہے۔‘

ایک اور چیز جو بدل جاتی ہے، وہ والدین کے بارے میں آپ کے نظریات ہیں۔ باپ یا ماں بننے کے بعد آپ کو اپنے ماں باپ کی قدر ہوتی ہے اور ان کی قربانیاں بھی سمجھ آنے لگتی ہیں۔ کاش یہ احساس پہلے ہی جائے، نہیں ایسا ممکن نہیں۔ آپ اپنے والدین کو خوش رکھ پائے یا نہیں، اس کا اندازہ آپ کو خود ہو جائے گا جب اپ والدین بن جائیں گے۔ کہتے ہیں نا کہ ’ابا ابا کہنا سوکھا، تے ابا کہوانا بڑا اوکھا‘ میرا جی چاہتا ہے کہ پڑھنے والوں کو سمجھا دوں کہ اس وقت سب سے بڑا دھوکہ جو آپ کھا رہے ہیں وہ والدین کو ناراض کرنا ہے. مگر میں بے بس ہوں میرے پاس وہ مثال وہ الفاظ نہیں کہ سمجھا سکوں. مگر کل جب وقت آپ کو سکھاے گا تو آپ کو بہت کچھ سمجھ آئے گا۔

سمجھانے سے یاد آیا وہ تبدیلیاں جن کو سمجھنا بہت ضروری ہے وہ سمجھ لیں۔

موبائل فون۔ شادی کے بعد آپ کا سب سے بڑا دشمن آپ کا موبائل فون ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنا فون جب بھی استعمال کریں، یہ ذہن میں رکھیں کہ بیوی دیکھتی تو کیا میں فون کا یہ استعمال کرتا؟ بلکہ ہر وقت یہ سمجھیں، وہ دیکھ رہی ہے، اور وہ ہر جگہ موجود ہے، وہ آپ کی ہر چیز پر یکساں نظر رکھے ہوے ہے۔ اتنا بھی نہ ڈریں بیویاں کوئی خدا نہیں۔ البتہ میں تو خدا کہتا نہیں بس۔ (یہ تحریر وہ بھی پڑھے گی)۔

اپ خود بھی محسوس کریں گے کہ شادی کے بعد سے آپ کا فون کی سکیورٹی سے بھی اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ لہٰذا فون استعمال کرنے میں تبدیلی بھی آئے گی۔

رویے میں کیا تبدیلی آئے گی؟ آپ ٹھنڈے پڑ جائیں گے، یعنی شخصیت میں ایک ٹھہراؤ آئے گا جو اپنے ساتھ بلا کا ضبط لائے گا۔ یہ ضبط کس کام آئے گا؟ ضبط سے شخصیت میں ٹھہراؤ کیسے آئے گا؟ جب آپ کو نہ ماننے والی بات بھی ماننا آ جائے، آپ کو ضد سے ہٹنا آ جائے... یہ جانتے ہوئے کہ آپ سچ پر ہیں، مگر اپ پھر بھی خود کو مصلحتاً جھوٹا کہنا سیکھ جائیں... غصے میں بھی مسکرانا اور دن کو رات اور رات کو دن ماننا (بیوی کی خدائی یہاں بھی ذہن میں آئی) سیکھ جائیں تو آپ کا ضبط کمال کا ہو گا اور یہ ضبط بھی، ٹھہراؤ نہ لائے تو آپ کو ٹھہراؤ کے لیے زیادہ ٹھہرنا نہیں چاہیے بلکہ کوچ کرنا چاہیے۔

یاد رکھیں ضبط آپ کو خواہشات پر ضبط کرنا سکھائے گا، ہر خاتون کو دیکھ کر آپ کو اس میں اپنی بیوی کا چہرہ نظر آئے گا لہٰذا آپ وہیں اپنی خواہشات کو ضبط کر لیں گے۔ یوں آپ کے اندر ٹھہراؤ اور ضبط آ جائے گا۔

لیکن ایک دوست کہا کرتا تھا کہ وہ مرد ہی کیا جو دل پھینک نہ ہو۔ یعنی نان دل پھینک انسان مرد نہیں ہو سکتا۔ اس بات کو سچ مان لیا جائے تو تباہی ہے، قیامت ہے. موت ہے... کیسے؟ فرض کریں آپ نان دل پھینک شوہر ہیں تو اصولاً آپ مرد نہیں مانے جایئں گے. کیونکہ نان دل پھینک انسان مرد نہیں ہو سکتا۔

 لہٰذا آپ کی مردانگی گئی۔ فرض کریں آپ دل پھینک انسان ہیں تو اصولاً آپ مرد کہلائے جائیں گے۔ لیکن یہ مردانگی کے قصے بیوی تک پہنچ گئے تو آپ کی مردانگی کو سلام... بلکہ اکیس توپوں کی سلامی... اور یہ سلامی آپ کی بیوی دے گی وہ بھی توپ کے سامنے کھڑا کر کے۔ ایک اور تبدیلی خوف کی ہے، شادی کے بعد شاید موت کا خوف دل میں بڑھ جاتا ہے۔

کیسے؟ جانیے آئندہ قسط میں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ