’استعفیٰ یہاں نہیں آیا تو بعد میں آ جائے گا‘

بدھ کی رات مولانا کے پلان بی کے اعلان کے بعد جلسہ گاہ سے خیمے اکھاڑے گئے، بستر باندھ دیے گئے، واپسی کے لیے گاڑیوں پر سامان لادا گیا اور سرچ لائٹس بجھا کر مرکزی کنٹینر ختم کر دیا گیا۔

خیمے اکھاڑے اور بستر باندھ دیے گئے۔ چولہے ٹھنڈے اور پانی کے برتن خالی کیے گئے، گاڑیاں منگوائی گئیں اور ان پر سامان لادا گیا، اور پھر سرچ لائٹس بجھا کر مرکزی کنٹینر ختم کر دیا گیا۔

یہ مناظر تھے بدھ کی رات دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن میں اس میدان کے جہاں 31 اکتوبر سے جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ کی آزادی مارچ کے شرکا نے ڈیرے جما رکھے تھے۔ ان دو ہفتوں کے دوران یہاں ایک چھوٹا سا شہر آباد رہا، جہاں ہزاروں لوگ تحریک انصاف کی حکومت گرانے کے لیے جمع تھے۔

تاہم جے یو آئی ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بدھ کی رات آزادی مارچ کے پلان بی کا اعلان کرتے ہوئے احتجاج کے پہلے حصے کو ختم کر دیا۔ انہوں نے سیکٹر ایچ نائن کے اس میدان میں جمع احتجاجیوں کو یہاں سے بوریا بستر لپیٹنے کا حکم دیا۔

اور امیر کا حکم ملتے ہی جیسے احتجاجی کیمپ میں بھونچال آگیا ہو۔ اب یہاں کے مکینوں پر صرف ایک ہی خبط طاری نظر آرہا تھا: ’پلان اے ختم اور ہم نے پلان بی پر عمل کرنے کے لیے یہاں سے جانا ہے۔‘

جب ہم وہاں پہنچے تو جلسہ گاہ میں ہر طرف ایک ہی طرح کے مناظر دیکھنے کو ملے۔ ہر کوئی اپنا سامان سمیٹ رہا تھا اور گاڑیوں کا انتظام کر رہا تھا۔ کئی ایک نے تو سامان کمر پر رکھا اور باہر کی طرف روانہ ہو گئے۔

کندھے پر بڑا سا بیگ لٹکائے صوبہ پختونخوا سے آئے ہوئے شمشیر ولی نے کہا ’میں اکیلا آیا تھا۔ سامان بھی تھوڑا لایا تھا۔ بس اب جا رہا ہوں۔ لاری اڈے جاکے گاڑی پکڑوں گا اور گھر واپس۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جلسہ گاہ میں مرکزی کنٹینر جہاں سے سیاسی جماعتوں کے رہنما شرکا سے خطاب کرتے تھے بھی سونا سونا لگ رہا تھا۔ وہاں کی اکثر بتیاں بجھا دی گئیں تھیں اور اس پر نصب بینرز اور بڑی بڑی سرچ لائٹس اتاری دی گئیں۔

اگرچہ گاہے بہ گاہے مرکزی کنٹینر پر سے اعلانات ہو رہے تھے۔ تاہم وہاں وہ گہما گہمی نہیں تھی جو گذشتہ دو ہفتوں کے دوران دیکھنے میں آتی رہی۔

جمعیت علمائے اسلام ف کے رضاکاروں کی تنظیم انصار الاسلام سے منسلک نوجوان بھی واپسی کی تیاریاں کرتے نظر آئے۔ تاہم وہ یہاں سے جانے والے سب سے آخری لوگ تھے۔

جس بات نے ہمیں سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان لوگوں کا عزم تھا۔ تقریباً ہر شخص کی زبان پر ’پلان بی‘ کا ذکر تھا۔

ہم نے اس احتجاجی شہر میں بیسیوں لوگوں سے گفتگو کی اور سب کا کہا کہنا تھا کہ امیر (مولانا فضل الرحمٰن) نے یہاں سے جانے اور اپنے اپنے علاقوں میں احتجاج کا حکم دیا ہے۔

سندھ کے ایک دور دراز علاقے سے آئے باریش شخص نے کہا: ’میں معلوم کرنا چاہتا تھا کہ مجھے یہاں سے سیدھا اگلے احتجاج کے مقام پر جانا ہو گا یا میں سامان چھوڑنے گھر جا سکتا ہوں؟‘

احتجاجیوں کی کافی بڑی تعداد نے رات وہیں گزارنے کے ارادے کا اظہار کیا۔ ان میں وہ لوگ شامل تھے جو بڑے بڑے گروپس کی شکل میں یہاں آئے تھے اور ان کے لیے گاڑیوں کا انتظام اگلے دن ہی ہو پائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست