کیا آزادی مارچ سے ڈنک نکل گیا؟

اپوزیشن اور حکومت کے درمیان جلسے کے مقام سے متعلق معاہدے اور نواز شریف کی ضمانت کے بعد تاثر ہے کہ حکومت کو آزادی مارچ سے خطرہ ٹل گیا لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟

جمعیت علمائے اسلام ۔ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن(اے ایف پی)

جمعیت علمائے اسلام ۔ ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے جب سے حکومت کے خلاف آزادی مارچ کا اعلان کیا ہے پاکستان کی سیاست میں ہلچل ہے، بالخصوص جب مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں جے یو آئی ۔ ف کے جھنڈے تلے اکٹھی ہوئی ہیں۔

31 اکتوبر کی آمد آمد ہے اور ہر طرف حکومت مخالف آزادی مارچ اور ممکنہ دھرنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، لیکن جب حکومت نے سنجیدگی کے ساتھ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے ہفتے کو باضابطہ مذاکرات کیے تو جلسے کے مقام پر اتفاق ہو گیا اور اس بابت اسلام آباد انتظامیہ سے ایک معاہدہ بھی طے پاگیا۔

دوسری جانب لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹس نے نواز شریف کو طبی بنیادوں پر ضمانت دی ہے، جس سے یہ تاثر عام ہوا کہ شاید اپوزیشن کے آزادی مارچ کی شدت کم ہو جائے گئی اور حکومت کے لیے خطرہ ٹل گیا۔

حکومت کی مذاکراتی ٹیم  کے سربراہ اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے رہبر کمیٹی سے مذاکرات کے بعد باقاعدہ اعلان کیا کہ اپوزیشن نے وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا جبکہ اس سے پہلے اپوزیشن لیڈر بضد تھے کہ وزیر اعظم کے استعفے پر ہی مذاکرات شروع ہوں گے۔

اپوزیشن کیا کہتی ہے؟

جمعیت علمائے اسلام پنجاب کے امیر قاری عتیق الرحمن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اپوزیشن کے وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے میں ایک انچ کمی نہیں آئی اور حکومتی وزرا جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ مذاکرات کے دوران بھی استعفے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ اسلام آباد میں احتجاج کا مقام تبدیل کرنے کی کیا وجہ تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا ان کا احتجاج حکومت کے خلاف ہے، پاکستان کے خلاف نہیں۔ ’ڈی چوک ریڈ زون میں سفارتی دفاتر اور اہم ادارے ہیں، اگر وہاں بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوتے تو ملک کو نقصان ہوتا۔‘

’ہم پی ٹی آئی کی طرح ملکی ساکھ کو نقصان پہنچانے پر یقین نہیں رکھتے، البتہ31 اکتوبر کو پورے اسلام آباد میں لوگ جمع ہوں گے اور وزیر اعظم کا استعفی لیے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔‘

مسلم لیگ ن کے رہنما محمد زبیر نے کہا اپوزیشن کے احتجاج پر حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے اور غیرجمہوری ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ’ن لیگ شہباز شریف کی قیادت میں آزادی مارچ کو کامیاب بنانے میں اپوزیشن جماعتوں کے شانہ بشانہ ہے۔‘

کراچی سے روانہ ہونے والا آزادی مارچ ممکنہ طور پر 29 اکتوبر کی رات لاہور پہنچے گا اور وہاں سے ن لیگ کی قیادت اس میں شامل ہوگی اور اسلام آباد پہنچیں گے۔

محمد زبیر نے کہا حکومت کے خلاف احتجاج کی شدت میں کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہوگا۔ ’ہم امن کے خواہش مند ہیں اور پُرامن رہیں گے، حکومت اپوزیشن کا راستہ روکنے کی کوشش نہ کرے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا جے یو آئی ۔ ف کے سینیٹرحافظ حمد اللہ کی شہریت منسوخ کرنا اور مفتی کفایت اللہ کی گرفتاری حکومتی پریشانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بیرسٹر عامر حسن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا دو دن کے اندر حکومت کو پتہ چل جائے گا کہ آزادی مارچ کے شرکا میں کتنا دم ہے۔

’جب پی ٹی آئی نے دھرنا دیا تھا تو انہوں نے اسلام آباد آبپارہ مارکیٹ کے سامنے جمع ہونے کی اجازت لی تھی، بعد میں وہ زبردستی ڈی چوک چلے گئے۔ ہم بھی ایسے ہی قانونی طور پر پشاور موڑ اسلام آباد جمع ہونے پر متفق ہیں، اگر ہمارا مطالبہ تسلیم نہ ہوا تو اپنے زورِ بازو سے جہاں بھی جانا پڑا جائیں گے۔‘

حکومتی موقف

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معاہدہ سب کے سامنے آچکا ہے جس کے بعد آزادی مارچ سے ڈنک نکل چکا۔ انہوں نے کہا احتجاج، مارچ یا دھرنا جو بھی کرنا ہے شوق سے کریں حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔

انہوں نے ملتان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا جو کہا تھا اس پر قائم ہیں، سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق اپوزیشن آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جتنا بھی احتجاج کرنا چاہتی ہے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے، لیکن اگر قانون کو ہاتھ میں لیا گیا تو قانون حرکت میں آئے گا۔ انہوں نے کہا پی ٹی آئی کی طرح جدوجہد کرنا اپوزیشن کے بس کی بات نہیں۔

سینیئر صحافی نوید چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا جلسے کے مقام پر معاہدہ اور نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے پر یہ تاثر ضرور ابھرا کہ شاید حکومت اور اپوزیشن میں معاملات طے پا گئے ہیں لیکن حقائق یہ ہیں کہ اس وقت تمام اپوزیشن جماعتیں تجربہ کار ہیں اور ان کے خیال میں آزادی مارچ کی شدت میں کمی نہیں آئی۔

’مولانا فضل الرحمٰن سمیت تمام قائدین اپنے موقف پر قائم ہیں کہ حکومت کو ہٹا کر نئے شفاف انتخابات کرائے جائیں۔ ابھی تو جدوجہد کا آغاز ہوا ہے، اس کے نتائج کا فوری اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ جب عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں تو حالات کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں۔ لیکن اس وقت حکومتی کارکردگی سے مایوس عوام جس طرح اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ دے رہی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید حکومت کو اپوزیشن کے مطالبات تسلیم کرنا ہی پڑیں گے۔‘

انہوں نے کہا جیسے نواز شریف کی قیادت میں لاہور سے روانہ ہونے والے لانگ مارچ کے گجرانوالہ پہنچتے ہی جج بحال ہوگئے تھے، اس بار بھی اسلام آباد پہنچنے سے قبل ہی اپوزیشن کے بعض مطابات شاید مان لیے جائیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست