تھر میں سو سے زائد مقامات پر آسمانی بجلی کیوں گری؟

پچھلے دو دنوں میں صحرائی ضلعے تھرپارکر میں آسمانی بجلی گرنے سے 25 افراد اور ایک سو سے زائد مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔

سندھ کے مختلف اضلاع میں بدھ سے شروع ہونے والی بارشوں کا سلسلہ جمعے کے دن بھی جاری ہے اور پچھلے دو دنوں میں صحرائی ضلعے تھرپارکر میں آسمانی بجلی گرنے سے اب تک پانچ خواتین سمیت 25 افراد اور ایک سو سے زائد مویشی بشمول بکریاں، گائے، بھیڑ اور اونٹ ہلاک ہو چکے ہیں۔

آسمانی بجلی سے ہلاک ہونے والوں کی اکثریت تھرپارکر ضلعےکی تحصیل چھاچھرو سے ہے، جہاں ایک ہی خاندان کی دو خواتین سمیت پانچ خواتین، پانچ مرد اور ایک نومولود بچی ہلاک ہوئے۔

اس کے علاوہ چیلہار میں دو مرد، اسلام کوٹ میں ایک مرد، کھینسر میں دو خواتین، مٹھی میں ایک خاتون، ڈیپلو میں ایک مرد، نگرپارکر میں چار خواتین اور ایک مرد اور عمرکوٹ ضلع کھوکھراپار میں ایک مرد ہلاک ہوا۔

انسانوں اور مویشیوں کے علاوہ تھر کے خوبصورت پرندے مور بھی آسمانی بجلی گرنے سے ہلاک ہوئے اورکئی مقامات پر صحرائی درختوں کو نقصان پہنچا۔

سرکاری طور پر تو کوئی ریکارڈ نہیں کہ تھر میں کتنے مقامات پر آسمانی بجلی گرنے کے واقعات ہوئے مگر مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ  گذشتہ دو دنوں کے دوران ایک سو سے زائد مقامات پر آسمانی بجلی گری ہے۔

وزیرِ اطلاعات سندھ سعید غنی کے مطابق تھرپارکر اور سانگھڑ کے اچھڑو تھر علاقے میں آسمانی بجلی گرنے سے 22 افراد ہلاک ہوئے جبکہ ڈپٹی کمشنر تھرپارکر کے بارشوں کے حوالے سے بنائے گئے سیل کی ایک رپورٹ کے مطابق جمعے کی صبح تک 17 ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں۔

اتنی ہلاکتوں کے باجود  ضلعی انتظامیہ نے کوئی ریلیف آپریشن شروع نہیں کیا۔

بدھ کو صحرائے تھر میں کئی مقامات پر تیز بارش کے ساتھ ژالہ باری بھی ریکارڈ کی گئی۔ محکمہ موسمیات سندھ کے چیف میٹرولاجسٹ سردار سرفراز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا دو دنوں میں تھر میں 100 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی۔

’نومبرمیں یہاں بارشیں ہونا غیر معمولی ہے کیوں کہ پچھلے کئی سالوں سے تھر میں اس مہینے میں بارش ریکارڈ نہیں ہوئی۔ ان غیر معمولی بارشوں کا سبب موسمیاتی تبدیلی ہو سکتی ہے، کیوں کہ اس وجہ سےموسم یکسر تبدیل ہو گئے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بجلی کیوں چمکتی ہے؟

آسمانی بجلی عموماً بادلوں میں چمکتی ہے۔ بادل اس وقت بنتے ہیں جب زمین سے قریب گرم ہوا پھیل کر اوپر کو اٹھ جاتی ہے۔ ہوا میں موجود پانی کے بخارات اس ہوا سے مل کر بادل بناتے ہیں۔

ایک خاص اونچائی پر پہنچ کر بادل کا اوپری حصہ اتنا ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ ان میں موجود بخارات جم کر برف کے ذرے بن جاتے ہیں۔ یہ ذرے آپس میں مسلسل ٹکراتے رہتے ہیں۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں ان میں سے کچھ پر منفی اور کچھ پر مثبت چارج آ جاتا ہے۔

مثبت چارج والے ذرات ہلکے ہوتے ہیں اس لیے بادل کے اوپری حصے کی طرح چلے جاتے ہیں۔ بھاری منفی ذرات نچلے حصے میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اس سے بادل کے اوپری حصے پر مثبت اور نچلے پر منفی چارج آ جاتا ہے۔

جب دونوں حصوں میں چارج کا فرق بہت زیادہ ہو جائے تو دونوں کے درمیان برقی تناؤ کی وجہ سے برقی چنگاریاں پیدا ہوتی ہے اور بجلی ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف دوڑ جاتی ہے۔ اسے آسمانی بجلی کا چمکنا کہتے ہیں۔

یہ بجلی عام طور پر بادلوں کے اندر ہی رہتی ہے، لیکن اگر بادل زمین سے قریب ہوں اور زمین پر موجود کسی چیز میں مثبت چارج پیدا ہو جائے تو اس صورت میں یہ بجلی بادل سے نکل کر زمین تک بھی پہنچ جاتی ہے جسے بجلی گرنا کہا جاتا ہے۔

 

تھر میں اتنی زیادہ بجلی کیوں گری؟

تھر میں بڑے پیمانے پر بجلی گرنے کے اسباب کیا ہوسکتے ہیں ؟ اس سوال کے جواب میں محکمہ موسمیات سندھ کے چیف میٹرولاجسٹ سردار سرفراز نے کہا: ’تھر میں حالیہ بارشوں یا پچھلے چند سالوں سے آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں اضافے کا سائنسی سبب بتانا تو مشکل ہے مگر میرے خیال میں ایسے واقعات کی وجہ یہ ہے کہ تازہ بارشوں کا سلسلہ تھر میں جنوب سے بحیرۂ عرب سے آنے والی ٹھنڈی ہواؤں کے سلسلے کی وجہ سے شروع ہوا اور ساتھ میں شمال میں ایران سے آنے والی گرم ہواؤں کے سلسلے آپس میں ٹکرا گئے، جس کے باعث ممکنہ طور پر بجلی گری۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ بارشوں کا سلسلہ ہفتے کی صبح تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

عالمی جریدے سائنس میگزین میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق اگر کسی خاص علاقے کا درجۂ حرارت وہاں کے اوسط درجہ حرارت سے بڑھا ہوا ہو اور وہاں بارش ہوجائے تو آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق اگر اس علاقے کا درجہ حرارت اوسط درجہ حرارت سے ایک ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہو تو وہاں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں 12 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔

مقامی لوگوں میں خوف و ہراس اور نقصان کی شدت

نگرپارکر شہر سے 30 کلومیٹر دور گاؤں ساکری کے رہائشی واگھومل میگھواڑ کے مطابق آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں اضافے کے بعد مقامی لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اوروہ بارش کے دوران باہر نکلنے سے کترانے لگے ہیں۔

مٹھی کے مقامی صحافی علی گل رند کے مطابق شدید بارشوں اور ژالہ باری کے باعث تھر میں تیار فصلوں بشمول گوار، تل اور باجرے کی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

تھر میں گذشتہ کئی سالوں سے جاری قحط سالی کے بعد اس سال مون سون کی بارشوں کے بعد اچھی فصلیں ہوئی تھیں مگر حالیہ بارشوں کے بعد فصل کو پہنچنے والے نقصان کے بعد خدشہ ہے اس سال بھی علاقے میں قحط سالی جاری رہے گی۔

کیا بجلی گرنے کے واقعات میں اضافے کی وجہ موبائل فون ہیں؟

تھرپارکر میں بجلی گرنے کے واقعات کو بعض لوگ موبائل فون کے استعمال سے جوڑ رہے ہیں، لیکن یہ درست نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق موبائل فون بجلی کو اپنی طرف نہیں کھینچتے، اس لیے ان کے استعمال سے بجلی گرنے کے خطرے میں اضافہ نہیں ہوتا۔ 

 

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان