اندھیروں میں چھپی طاغوتی دنیا: ڈارک ویب اور پاکستان

ڈارک ویب جنسی جرائم کا گڑھ ہے جہاں امرا بِٹ کوائن کے عوض بچوں سے بدفعلی کے علاوہ ان کو ایذا رسائی، غیر انسانی تشدد اور پھر قتل کرتا دیکھ کر اپنی بیمار ذہنیت کی تسکین کرتے ہیں۔

انسانوں سے آباد اس دنیا میں یقیناً کسی کونے میں طاغوتی طاقتوں نے اپنا بھی جہاں آباد کر رکھا ہے جہاں غیر اخلاقی اور کراہت آمیز سرگرمیاں رات کی تاریکی میں انجام پاتی ہیں۔ (تصویر: پکسا بے)

عہدِ روم میں ہونے والے خونخوار گلیڈی ایٹر کھیل انسانی تحت الشعور سے ابھی محو نہیں ہوئے، ایک بھوکے درندے کے سامنے قوی ہیکل انسان کو میدان میں اتارا جاتا تھا اور اس کو اپنی پوری کوشش کرکے درندے کو پچھاڑنا ہوتا تھا۔

اکثر اوقات انسان خود شیر کا نوالہ بن جاتا تھا اور ایمپی تھیٹر میں موجود مجمع تالیاں بجا بجا کر داد دیتا تھا اور انسانی خون اور چیڑ پھاڑ دیکھ کر بادشاہ اور رعایا تفریح حاصل کرتے تھے۔ عہدِ روم کا یہ سفاک کھیل آج بھی جاری ہے بس شکل، محل و قوع اور طریقے تبدیل ہوگئے ہیں۔ 

انسانوں سے آباد اس دنیا میں یقیناً کسی کونے میں طاغوتی طاقتوں نے اپنا بھی جہاں آباد کر رکھا ہے جہاں غیر اخلاقی اور کراہت آمیز سرگرمیاں رات کی تاریکی میں انجام پاتی ہیں۔ عموماً ویرانے، گورستان اور گنجان آباد علاقے شیطانی سرگرمیوں کے لیے محفوظ سمجھے جاتے ہیں اور عام انسان ان سے خوف کھاتا ہے۔ ظاہر کی آنکھ سے ڈھکی کُچھ ایسی ہی دنیا ڈارک ویب کے نام سے دنیائے انٹرنیٹ پر پائی جاتی ہے جہاں تک رسائی ایک خاص طبقہ، ایک خاص کرنسی سے اور خاص سرگرمیوں کے لیے حاصل کرتا ہے۔

ڈارک ویب پر موجود ’لال کمرے‘ لائیو جنسی جرائم کا گڑھ ہیں، بچوں سے بدفعلی کرنے والے امرا کثیر تعداد میں بِٹ کوائن کے عوض نومولود بچوں سے لے کر 13 سالہ بچوں سے بدفعلی کے علاوہ ان کو ایذا رسائی، غیر انسانی تشدد اور پھر قتل ہوتا دیکھ کر اپنی بیمار ذہنیت کی تسکین کرتے ہیں۔ بین الاقوامی طور پر ایسے منظم گروہ منشیات، انسانی جانوں کی اسمگلنگ کے علاوہ گور پورن بڑی تعداد میں بناتے اور خاص ناظرین تک بہم پہنچاتے ہیں۔ 

’گور پورن‘ جاپانی پورن انڈسٹری کی ایک ایسی صنف ہے جس میں انسانوں کو جنسی عمل کے ساتھ آہستہ آہستہ بہیمانہ طریقوں سے قتل کیا جاتا ہے۔ ایک عام انسان ایسے مناظر نہ سوچ سکتا ہے اور نہ دیکھ سکتا ہے۔

انٹرنیٹ کی آمد کے ساتھ ایسی فلموں کی بڑی مارکیٹ سامنے آئی۔ پہلے پہل صرف اینیمیٹڈ مناظر ہوتے تھے یا اداکاری۔ وقت کے ساتھ حقیقی مناظر کی عکس بندی ضرورت بنتی گئی۔ اس ڈیمانڈ کو حقیقی شکل دینے کے لیے بالغ افراد کی بجائے بچوں کا انتخاب کیا گیا کہ اُن میں مزاحمت کم سے کم ہوتی ہے اور ان کی چیخیں اور آہیں تشدد پسندوں کو زیادہ ذہنی تسکین پہنچا سکتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب چونکہ دنیا کے سب ممالک میں چائلڈ پورنوگرافی ممنون ہے تو ڈارک ویب جہاں پہلے ہی غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیاں جاری تھیں، اس کو محفوظ سمجھتے ہوئے یہاں ایسے لال کمرے بنائے گئے جہاں انسانیت سوز کھیل کھیلا جا سکے۔ اس کراہت آمیز کاروبار کو چلانے والے اور فیض اٹھانے والے جتنے ملعون ہیں اتنے ہی با اثر اور صاحب حیثیت بھی ہیں۔

رقم کی ترسیل کے لیے بِٹ کوائن جیسی محفوظ کرنسی کا انتخاب ان کے شاطر ذہن کی غماز ہے۔ 

بِٹ کوائن مالیاتی لین دین کی خاطر بنائی گئی ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے جو کسی بینک کی محتاج نہیں، جسے آپ کسی بھی کرنسی میں بدل سکتے ہیں۔ اس وقت ایک بِٹ کوائن کی قیمت ساڑھے 13 لاکھ روپے کے قریب چل رہی ہے اور سٹیٹ بینک نے اس پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ گویا قانونی طور پر اس کرنسی میں ادائیگی پاکستان میں ممکن نہیں۔

اب ہوتا یوں ہے آئی ٹی ایکسپرٹ، جو ان گروہوں نے ڈارک ویب چلانے کے لیے رکھے ہوتے ہیں، کئی بِٹ کوائن کے عوض یوزر نیم اور پاس ورڈ دیتے ہیں۔

اس قبیح کاروبار کے خریدار پڑھے لکھے، سیاسی اثر رسوخ رکھنے والے امرا ہیں جن کا تعلق یورپ، امریکہ اور عرب ممالک سے ہے۔ یہ ذہنی مریض امرا غریب ممالک اور بعض اوقات اپنے ممالک میں موجود نوزائیدہ بچوں کو ریپ اور قتل ہوتا دیکھتے ہیں۔ لائیو آنے کی رقم زیادہ ہے، جب کہ ایسی ویڈیوز بنانا اور بانٹنا ہر خریدار کے لیے ضروری ہے۔ اس ضمن میں بھارت میں وٹس ایپ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ وہاں 30 کے قریب ایسے گروپ ڈھونڈے گئے جہاں چائلڈ پورن شیئر کیا جا رہا تھا۔ 

جیسے کہ عرض کیا گیا ہے کہ اس انسانیت سوز عمل میں زیادہ تر با رسوخ امرا شامل ہوتے ہیں تو رازداری برقرار رہتی ہے، حتیٰ کہ عالمی یا مقامی قانونی ایجنسیاں ریکی کرکے اس کا سراغ نہ لگا لیں۔ امریکہ، انگلینڈ، ناروے، برازیل اور بھارت میں اب تک کئی ڈارک ویب ویب سائٹس پکڑی جا چکی ہیں اور مجرموں کو سزائیں مل چکی ہیں۔ 

امریکی اخبار بلوم برگ کے مطابق 2014 میں چائلڈ پورن کے 11 لاکھ واقعات رجسٹر ہوئے اور ڈارک ویب پر اُن کے ہونے کے شواہد ملے۔ 2019 میں یہ تناسب 15 سو فیصد بڑھ کر ایک کروڑ 86 لاکھ ہو چکا ہے جو ایک ہوش رُبا اضافہ ہے۔ پاکستان میں 2014 میں ہونے والے قصور واقعے میں لڑکوں سے زیادتی اور ان کی ویڈیوز کے منظرِعام پر آئی تھیں۔ اس کے بعد قیاس آرائی کی گئی کہ اس کی کڑیاں بین الاقوامی جرائم پیشہ تنظیموں سے مل سکتی ہے مگر ان باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔

اس کے بعد ایک لمبی فہرست ہے۔ زینب قتل کیس سے لے کر سہیل ایاز نامی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے پکڑے جانے تک۔ موصوف اٹلی اور برطانیہ سے سزا یافتہ ہیں اور اس قبیح مافیا کے سرگرم کارکن کی حیثیت سے پاکستان میں فعال رہے ہیں۔ 

بین الاقوامی طور پر اس دھندے کا علم 1999 میں ایف بی آئی کے ایک آپریشن سے ہوا، جس میں کئی ویب سائٹوں تک رسائی حاصل کرکے ایسے یوزر تک پہنچا گیا۔ امریکہ، یورپ اور ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ایسے مجرموں کی سزا کچھ سال جیل اور جرمانہ ہے، حالانکہ جتنا یہ سنگین جرم ہے، اس کی سزا کہیں زیادہ سخت ہونی چاہیے۔

مجرم کی شخصیت اور نفسیات کا مطالعہ کیا جائے تو ایسے لوگوں کو ’پیڈو فائل‘ کہتے ہیں۔ پیڈوفیلیا ایک ذہنی بیماری ہے جس کی توجیہہ فی الوقت مشکل ہے۔ قیاس یہی ہے کہ جنسی گھٹن کا مارا ذہن یہ عمل سب سے آسان ٹارگٹ بچوں میں تلاش کرتا ہے۔ یوں مفعول آگے جا کر فاعل بنتا ہے، اسی طرح تشدد پسندی اور ایذا رسائی بھی ایک ذہنی عارضہ ہے۔ 

تا حال اس بیماری کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔ دوسرے ممالک میں پیڈو فائل کو اشتہاری قرار دے کر اُس کے پوسٹر ہر جگہ لگائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں اتنے شواہد ملنے کے بعد ضرورت ہے کہ مزید قانون سازی کی جائے۔

سینیٹ نے 2014 میں چائلڈ پروٹیکشن سسٹم کے نام سے ایک بل پاس کیا تھا، جس کے تحت کم سے کم سزا سات سال قید اور جرمانہ ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں قیدیوں کی ذہنی صحت پر خرچ کرنے کا تصور نہیں ہے تو یہ سزا جرم کی سنگینی کے سامنے ناکافی ہے۔ اس سلسلے میں مزید قانون سازی اور سزا کو موت یا عمر قید میں تبدیل کرنے کی تجویز دی جاتی ہے۔ 

اس سارے موضوع پر تحقیق کے دوران مجھے جرائم میں امیر اور غریب کا ایک منفرد تعلق نظر آیا۔ تیسرے درجے کے ممالک کے بچے زیادہ تر تَر نوالہ بنتے ہیں اور جرم کرنے والا مقامی حریص انسان ہوتا ہے۔ فلپائنی اس کاروبار میں بہت آگے ہیں، جب کہ اس کے صارفین کی بڑی تعداد امریکہ، یورپ، برازیل، عرب ممالک، جاپان اور کوریا میں آباد ہے۔ 

ہمارے معاشرے میں ذہنی عوارض سے متعلق آگاہی انتہائی کم ہے، جب کہ ماہرینِ نفسیات نہ ہونے کے برابر ہیں، اور جو ہیں بھی، ان سے علاج کے لیے عام آدمی کی جیب اجازت نہیں دیتی۔

اس لیے پاکستان میں اس گھناؤنے کھیل پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کے علاوہ ذہنی صحت اور تعلیم پر بھی ہنگامی بنیادوں پر کام دینے کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ