’رہیں نہ رہیں ہم، مہکا کریں گے‘

بالی وڈ کے لاجواب میوزک ڈائریکٹر روشن کی برسی پر خصوصی تحریر

پاکستانی شہر گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے روشن لال، سرود اور ایسراج بجانے کے ماہر تھے۔ (تصویر: آئی ایم ڈی بی ڈاٹ کام)

یہ سال تھا 1964 اور فلم فیئر ایوارڈز کا میلہ سجنے کو تھا۔ نوشاد کی فلم ’میرے محبوب‘ اپنے گیتوں کی بے پناہ مقبولیت کے ساتھ باکس آفس پر بھی سال کی نمبر ون فلم تھی۔ تین سال پہلے ’مغل اعظم‘ جیسی مہان فلم کے باوجود موسیقار اعظم نوشاد کے ہاتھ بہترین موسیقار کے فلم فیئر ایوارڈ سے خالی رہے۔

واجبی موسیقی کے باوجود شنکر جے کشن کی جوڑی جوڑ توڑ اور پیسے کی مدد سے یہ ایوارڈ خریدنے میں کامیاب رہی۔ بہترین موسیقار کا فلم فیئر تھامے نوشاد کو دس برس بیت چکے تھے اور اب مزید انتظار کی سکت باقی نہ تھی۔

نوشاد کی ’میرے محبوب‘ کے مدمقابل اس بار اگر کوئی فلم جم کے کھڑی تھی تو وہ تھی ایم صادق کی ’تاج محل‘، جس کے موسیقار روشن تھے جو نوشاد کو اپنا گرو مانتے تھے۔ نوشاد صاحب تو 1944 میں رتن سے ہی پہلے نمبر پہ آ براجمان تھے اور تقریباً درجن بھر گولڈن جوبلی فلمیں اپنی پٹاری میں رکھتے تھے۔ جبکہ روشن پہلا دوسرا یا تیسرا نمبر تو کجا ابھی بی سے اے گریڈ میں ہی داخل نہ ہو سکے تھے۔

فلم فیئر کے منچ پہ روشن کی تاج محل بہترین موسیقار کا ایوارڈ لے اڑی۔ اب کی بار نوشاد کسی محلاتی چال کے نتیجے میں نہیں بلکہ خالص میرٹ کی بنیاد پہ ناک آؤٹ ہوئے۔ صرف فلم فیئر ہی نہیں، اُس سال بناکا گیت مالا میں بھی ’جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا‘ سال کا سرتاج گیت قرار پایا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

روشن کے ساتھ ساتھ اس فلم کے گیت کار ساحر لدھیانوی بھی بہترین نغمہ نگار کا ایوارڈ جیتنے میں کامیاب رہے۔ گیت تھا ’جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا۔‘ یہ ساحر ہی تھا جس کی مدد سے روشن نے دو سال پہلے فلم ’برسات کی رات‘ کے ذریعے پہلی بڑی کامیابی چکھی۔ اس فلم کی قوالیوں ’نہ تو کارواں کی تلاش ہے‘ اور ’نگاہ ناز کے ماروں کا حال کیا ہو گا‘ نے نہ صرف مقبولیت حاصل کی بلکہ نئے رجحان کی بنیاد بھی رکھی۔ اس کے بعد ’آرتی‘ کے گیت ’آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا،‘ ’اب کیا مثال دوں میں تمہارے شباب کی‘ اور ’بار بار توہے کیا سمجھائے پائل کی جھنکار‘ بھی بہت مقبول ہوئے لیکن ریٹنگ کی دوڑ میں فلم فیئر کا سکہ سب سے بھاری ثابت ہوا اور اس کے ہاتھ لگتے ہی روشن موسیقاروں کی پہلی صف میں کھڑے نظر آئے۔

پاکستانی شہر گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے روشن لال، سرود اور ایسراج بجانے کے ماہر تھے۔ اول اول انہوں نے آل انڈیا ریڈیو میں بطور سازندہ ملازمت اختیار کی لیکن ان کی نظریں کہیں اور تھیں۔ اس لیے انہوں نے ریڈیو کا بہتا دریا چھوڑ کی بمبئی کے کھلے سمندر کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

بمبئی میں ان کی ملاقات عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور سے ہوئی جو اُس وقت فلم سنگھار کی موسیقی ترتیب دے رہے تھے۔ انہوں نے ہونہار روشن کو اپنا اسسٹنٹ مقرر کر دیا۔ اس کے اگلے ہی سال یعنی 1949 میں روشن کو بطور موسیقار پہلی فلم ’نیکی اور بدی‘ مل گئی۔ اس کے بعد انہیں کام تو ملتا رہا لیکن تمام تر صلاحیتوں کے باوجود انہیں صف اول تک پہنچنے میں 42 فلموں اور ڈیڑھ دہائی کے اعصاب شکن مرحلے سے گزرنا پڑا۔

مدن موہن، خیام اور روشن، تینوں نے اپنا سفر کم و بیش ایک ہی وقت میں شروع کیا۔ فلم انڈسٹری میں سبھی ان کی صلاحیتوں کے معترف تھے لیکن انہیں ’سبز قدم‘ سمجھا جاتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ جن فلموں میں ان کی موسیقی ہوتی، وہ فلم باکس آفس پر کچھ زیادہ دھوم مچا نہیں پاتی تھی۔ اچھے میوزک کو مقبول عام بنانے سے ناواقفیت کو لوگ بدقسمتی سے تعبیر کرتے۔ ’برسات کی رات‘ وہ فلم تھی جس سے روشن نے اس لیبل کو اتار پھینکا لیکن موسیقاروں کی پہلی صف میں اس کی شمولیت تاج محل کی مرہون منت ہے۔

اگلے سال فلم فیئر ایوارڈ مدن موہن کے ہاتھ بھی چھو کر گزر گیا۔ لکشمی کانت پیارے لال کی شاطرانہ چال کے سبب ’وہ کون تھی‘ کے مقابلے میں ’دوستی‘ ایوارڈ لے اڑی۔ غزل کا شہزادہ، لتا کا مدن بھیا ایک بار پھر ’بدقسمت‘ ثابت ہوا۔ خیام کو پہلے فلم فیئر کے لیے ابھی مزید 13 سال انتظار کرنا تھا۔

تاج محل کے بعد روشن اور ساحر کی اگلی فلم ’چترلیکھا‘ تھی جو 1964 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اس میں رفیع کا گیت ’من رے تو کاہے نہ دھیر دھرے‘ ہو یا لتا کی آواز میں ’سنسار سے بھاگے پھرتے ہو بھگوان کو تم کیا پاؤ گے‘ آج بھی تازہ ہیں۔

1965 میں مجروح کے ساتھ روشن نے فلم ’بھیگی رات‘ کے لیے نغمے لکھے جن میں یہ تین تو آج بھی مقبول ہیں، ’محبت سے دیکھا خفا ہو گئے،‘ ایسے تو نہ دیکھو کہ بہک جائیں کہیں ہم‘ اور ’دل جو نہ کہہ سکا وہ راز دل کہنے کی رات آئی۔‘

اسی سال فلم ’نئی عمر کی نئی فصل‘ کے لیے موسیقار روشن، نغمہ نگار نیرج اور گلوکار رفیع کی مثلث نے ’کارواں گزر گیا‘ اور ’آج کی رات بڑی شوخ بڑی نٹ کھٹ ہے‘ جیسے لافانی نغموں کا تحفہ پیش کیا جو آج بھی دلوں کی دھڑکن تیز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

1966 میں فلم ممتا کے گیت ’رہیں نہ رہیں ہم مہکا کریں گے‘ نے موسیقی کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ ایس ڈی برمن کی دھن ’ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں‘ سے ماخوذ اس گیت کو روشن نے چھو کے کچھ ایسا جادو بھر دیا کہ خود ایس ڈی برمن نے بھی بہت داد دی۔ اس دھن پہ کم و بیش درجن گیت بن چکے ہیں لیکن روشن کے گیت میں بھری اداسی، پاکیزگی اور جادو کے قریب دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔

1967 میں ’بہو بیگم‘ جیسی سپرہٹ فلم آئی جس میں ایک بار پھر روشن اور ساحر ایک ساتھ تھے۔ ’ہم انتظار کریں گے تیرا قیامت تک‘ اور ’دنیا کرے سوال تو ہم کیا جوب دیں‘ سدا بہار گیت ہیں۔

فن کار کا فن جتنا بھی سدا بہار ہو، اس کی زندگی میں خزاں ناگزیر ہے۔ روشن اپنے بہترین تخلیقی دور سے گزر رہا تھا کہ خزاں کا ایک تیز جھونکا اسے بہا لے گیا۔ ناکامی کے دنوں میں انسانی دل میں بارہا موت کی آرزو سر اٹھاتی ہے لیکن زندگی کا امکان ڈٹے رہنے پر اکساتا رہتا ہے۔

افسوس جیسے ہی یہ امکان پوری طرح بروئے کار آنے لگے، موت بغیر دستک دیے آن دھمکی۔ 16 نومبر 1967 کو روشن کی زندگی کا چراغ عین اس وقت بجھ گیا جب اس کی روشنی برصغیر کے کونے کونے میں ابھی چمکنا شروع ہی ہوئی تھی۔

لیکن اس کی موسیقی آج بھی ہمارے دلوں میں روشن ہے بالکل اسی طرح ’کہ جیسے مندر میں لو دیے کی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی