میں نے سو خواتین کے پوشیدہ اعضا کو تصاویر کا موضوع کیوں بنایا؟

ڈاکیومنٹری فلم 100 Vaginas جو سو مختلف خواتین کی کہانی ان کے پوشیدہ اعضا کی تصاویر کے ذریعے سناتی ہے

لارا جنہوں نے 100 خواتین کے اندام ہائے نہانی تصاویر میں قید کیے

عام دنوں میں ٹیلی ویژن پر آنے والے پروگرام بہت ہی بیزار کن قسم کے ہوتے ہیں اسکرین پر وہی ایک جیسی شکلیں بار بار نظر آتی ہیں اور پرانے پروگرام مستقل اپنی جگہ بنائے ہوتے ہیں۔ لیکن منگل کی رات یہ صورتحال بدل جائے گی اس کے لئے ہم برطانوی فوٹوگرافر لارا ڈوڈزورتھ کے شکر گزار ہیں۔

ان کی دستاویزای فلم 100 Vaginas سو مختلف خواتین کی کہانی ان کے پوشیدہ اعضاء کی تصاویر کے ذریعے سناتی ہے اور یہ منگل کی شام سے چینل فور پر دکھائی دے گی۔ یہ ڈاکیومنٹری ان کے ایسے پروجیکٹس کی تیسری سیریز ہے۔

'میں جانتی ہوں کہ لوگوں کے لیے یہ تصویریں ایک دم چونکا دینے والی ہوں گی۔  لیکن اس سارے پروجیکٹ میں یہی بات اہم ہے،‘ فوٹوگرافر لارا نے یہ بات انڈیپنڈنٹ سے بات کرتے ہوئے بتائی۔

خواتین کی فرج کی فوٹوگرافی پر مبنی یہ ڈاکیومنٹری اس پروگرام کا تیسرا حصہ ہے جس میں لارا نسل انسانی کے پوشیدہ اعضا پر مشتمل تصاویر بناتی ہیں اور ان کے ذریعے کوئی پیغام دیتی ہیں۔

اس سیریز کا پہلا حصہ Bare Reality تھا جس میں سو خواتین کی چھاتیوں کو موضوع بنایا گیا تھا. لارا کہتی ہیں کہ اس کے بعد قدرتی طور پر انہیں محسوس ہوا کہ مرد حضرات کے جنسی اعضا کی فوٹو گرافی بھی کرنی چاہیے۔ اس پروجیکٹ کا نام انہوں نے Manhood رکھا تھا۔

یہ دونوں ڈاکیومنٹریز کتابوں کی شکل میں بھی ڈھل چکی ہیں اور دنیا بھر سے انہیں قبول عام حاصل ہوا ہے۔

اب مذکورہ فوٹوگرافر نے اپنی توجہ اندام نہانی اور فرج کی طرف مرکوز کی ہے۔  بلاشبہ ان کا یہ کام اب تک کے پروجیکٹس میں سب سے زیادہ چونکا دینے والا ہے۔

’میں نے جو کچھ ماضی میں کیا اس سارے کام میں اور ان تصاویر میں یہ فرق ہے کہ مردانہ اعضا اور خواتین کی چھاتیوں کی طرح فرج (Vulva) کوئی بیرونی عضو نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ چھپا رہتا ہے اور یہ بہت پراسرار سا لگتا ہے۔ انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ ایک ہم جنس پرست خاتون نہیں ہیں تو شاید آپ نے کبھی اس بات پرغور ہی نہیں کیا ہو گا اور آپ اگر یہ سب کچھ انٹرنیٹ پر ڈھونڈنا چاہیں تو آپ کو صرف فحش اور جنسی نوعیت کی فوٹوگرافی میں ہی یہ چیزیں نظر آئیں گی۔‘

لارا کی تحقیق اور اس پر بنی ڈاکومینٹری بہت ہی غیر جنسی اور سادہ انداز میں ان تصاویر کے ذریعے خواتین کی زندگی کے پوشیدہ گوشے وا کرتی ہے۔

چینل فور کی اس ڈاکومنٹری میں ناظرین ایسے بہت سے کلوز شارٹس دیکھ سکیں گے جن میں خواتین اپنی اندام نہانی سے خون میں لتھڑے ہوئے ٹیمپون نکالتے دکھائی دیں گی، انہیں اولاد کو جنم دیتے ہوئے دکھایا جائے گا اور وہ خود لذتی کرتے ہوئے بھی نظر آئیں گی۔ ’یہ سب کچھ کم از کم میں نے ٹی وی پر پہلے نہیں دیکھا ہے میرے خیال میں تو یہ چیزیں سکولوں میں بھی دکھائی جانی چاہیئیں،‘ لارا نے مزید بات کرتے ہوئے بتایا۔

ان کے اس کام کی موضوعاتی اہمیت محسوس کرتے ہوئے پہلے ہی بہت سے اخبارات اور رسائل میں ان کی تعریف کے حامل مختلف مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ ان سب میں اس امر کو بنیاد بنایا گیا ہے کہ انہوں نے ایک ممنوعہ سمجھے جانے والے طریقے سے لوگوں کی توجہ بہت اہم مسائل کی طرف دلائی ہے۔ خواتین کے جنسی اعضا کو معاشرے میں ہمیشہ ٹیبو (ممنوع) سمجھا گیا ہے۔

لارا کہتی ہیں: ’خواتین کے جسم سے بہت زیادہ شرم اور حیا کے تصورات وابستہ کر دیے گئے ہیں۔ انہیں جب بھی میڈیا میں دکھایا جاتا ہے تو یہ سب مسائل ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ خاص طور پر یہ تماشہ اس وقت اپنے عروج پر ہوتا ہے جب بات اندام نہانی کی ہو رہی ہو۔‘

انہوں نے کہا: ’مجھے یہ سب بہت برا لگتا ہے کیوں کہ یہ ہماری نسوانیت کا ایک حصہ ہے۔ اندام نہانی اور فرج سے ہمارے ماہانہ ایام وابستہ ہیں، اس سے ہمارے بچوں کی پیدائش وابستہ ہے، اس سے ہمارے مینوپاز کے مختلف مرحلے وابستہ ہیں اور اسی سے وہ سب داغ دھبے وابستہ ہیں جو اچانک کسی بھی خاتون کی ذات کا حصہ بن سکتے ہیں۔

’خواتین کا وہ جسمانی حصہ جو عام طور پہ دیکھنے یا دکھانے کے لیے حرام سمجھا جاتا ہے، میں اس کی تصاویر کے ذریعے مختلف سماجی اور جذباتی ممنوعہ موضوعات کو چھیڑنے کی جرات کر رہی ہوں۔‘

لارا کا یہ پروجیکٹ اس اہم موقع پر سامنے آیا ہے جب ایسے تمام ممنوعہ موضوعات پہلے سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ معاشرے میں پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ایک سروے کے مطابق خواتین کا ڈاکٹروں کے پاس نسوانی مسائل کے چیک اپ کے لیے جانا پہلے کے مقابلے میں 34 فیصد تک کم ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ حیران کن ہے۔ وہ اپنی فرج (Vulva) کی شکل سے مطمئن نہیں اور اس کی ظاہری شکل کو بدلنے کے لیے وہ پلاسٹک سرجری سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ فرج کی یہ سرجری اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ہونے والی کاسمیٹک سرجری ہے۔

حیران کن صورتحال یہ ہے کہ خواتین خود بھی اپنے جسم کے اس حصے کا نام نہیں جانتیں۔ 60 فیصد خواتین سے جب ایک سروے میں یہ پوچھا گیا کہ فرج (Vulva) انسانی جسم میں کہاں واقع ہے تو وہ سامنے موجود نسوانی جسم کی تصویر پر کہیں بھی انگلی نہیں رکھ پائیں۔ یہ سروے کینسر ریسرچ کے ایک ادارے نے کیا تھا جو لارا کے ساتھ اس فوٹوگرافی پروجیکٹ میں تعاون کر رہا ہے۔

پریڈنیا پسال جو لندن کے ایک ہسپتال میں امراض نسواں کی ماہر ہیں، انہوں نے بتایا کہ فرج (Vulva) اور اندام نہانی (Vagina) میں کیا فرق ہے۔ ان کے مطابق فرج شرم گاہ کا وہ حصہ ہے جو سامنے سے نظر آتا ہے، جس میں اس کے دو لب اور کلی ٹوریس وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ وجائنا جسم کا وہ حصہ ہے جو بچوں کی پیدائش، ماہانہ ایام اور جنسی عمل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

اس بارے میں ایک مضمون سامنے آنے کے بعد بہت سے مرد حضرات بھی اسی کنفیوژن کا شکار دکھائی دیے کہ ٹھیک لفظ کون سا ہے۔

لارا کے مطابق یہ بات بہت عجیب تھی جب انہوں نے بہت سی خواتین کے انٹرویو کیے اور انہیں معلوم ہوا کہ وہ سب خواتین اپنے جسم کے ایک حصے کا نام ہی نہیں جانتیں، اور اس پورے حصے کو وجائنا کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے۔

لارا کے مطابق انہوں نے اس سیریز کے لیے جب مختلف خواتین سے انٹرویو کیے تو انہوں نے ماہواری، خود لذتی، اسقاط، سروائیکل کینسر، جنسی عدم تحفظ اور بہت سے معاملات پر کھل کر بات کی۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے پوری ڈاکومنٹری ریکارڈ کرتے ہوئے اپنا عملہ صرف خواتین پر مشتمل رکھا کیوں کہ وہ یہ بات جانتی تھی کہ ایسے موضوعات پر خواتین کبھی بھی کھل کر بات نہیں کر سکیں گی۔

اس سیریز میں ایک خاتون ایسی بھی تھی جنہیں نسوانی ختنے (FGM) کی رسم کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ لارا کے مطابق ان کی تصویر کھینچنا اور ان سے بات کرنا اس پوری ڈاکومنٹری کا مشکل ترین حصہ تھا۔ واضح رہے کہ نسوانی ختنے کے عمل میں خواتین کی فرج کے بیرونی لب اور کلی ٹورئیس کاٹ کر اوپری حصے کو سی دیا جاتا ہے۔

لارا کے مطابق ’کسی بھی خاتون کے ساتھ یہ سب سے بڑا ظلم ہے۔ ان خاتون نے اپنی تمام تفصیلات بہت بہادری سے بتائیں لیکن جب ان کی بات ختم ہوئی تو اس کمرے میں موجود تمام عورتیں برے طریقے سے رو رہی تھیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن