غزہ کے فنکار: جب تخلیق مزاحمت بن جائے

فلسطینی ادیب محمود الشاعر کہ ’ہمیں لکھنا جاری رکھنا ہے۔ تخلیق وہ واحد راستہ ہے جو ہمیں ٹوٹنے سے بچاتا ہے۔‘

غزہ شہر کے یرموک سپورٹس سٹیڈیم میں بے گھر افراد کے لیے قائم کیمپ میں 17 سالہ فلسطینی لڑکی اسرا سعدہ 19 نومبر 2024 کو کوئلے کی مدد سے تیار کیے گئے رنگ سے تصویر بنا رہی ہیں (اے ایف پی)

غزہ کے مصوروں، شاعروں، لکھاریوں اور فلم سازوں کے لیے تخلیق اب محض فن نہیں رہی، بلکہ بقا کی جنگ ہے۔ دو سالہ جنگ نے نہ صرف غزہ کی عمارتوں کو ملبے میں بدلا بلکہ اس کی ثقافت، آرٹ گیلریوں، اور اجتماعی شعور کے مراکز کو بھی ختم کر دیا ہے۔

’ثقافت ضرورت ہے، عیاشی نہیں‘

فلسطینی ادیب محمود الشاعر، جو ’گیلری اینڈ میگزین 28‘ کے سربراہ ہیں، کہتے ہییں کہ ’میری گیلری ملبے کا ڈھیر بن چکی ہے، مگر اصل نقصان جسمانی نہیں، فکری ہے۔ یہ جگہ جدید فلسطینی یادداشت کا ذخیرہ تھی، جہاں ہم اپنی اجتماعی سانس لیتے تھے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ لکھنا ان کے لیے اب علاج کی پہلی سیڑھی ہے: ’ہمیں لکھنا جاری رکھنا ہے۔ تخلیق وہ واحد راستہ ہے جو ہمیں ٹوٹنے سے بچاتا ہے۔‘

محمود الشاعر کے مطابق اب فن انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی بقا کا ذریعہ ہے۔

’ہمیں اپنے دکھ کو آرٹ میں ڈھالنے کے لیے ادارے، وسائل اور تحفظ چاہیے۔ قبضہ کرنے والوں کے پاس ادارے ہیں، ہمارے پاس صرف یادیں۔‘

’جب بھوک میں تصویریں جلائی گئیں‘

نوجوان مصورہ لمیس الشریف بتاتی ہیں کہ ان کا آرٹ اسٹوڈیو ’ایٹلیے غزہ‘ YMCA کی عمارت میں تھا، جو اب بے گھر افراد کا کیمپ بن چکا ہے۔

’لوگ اندر آئے، تصویریں پھاڑ دیں، ان کے فریم جلا کر کھانا پکایا۔ یہ آرٹ کے خلاف نہیں تھا، زندگی بچانے کی کوشش تھی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ فن بھوک نہیں مٹا سکتا، لیکن سماج کو زندہ رکھتا ہے۔

’آرٹ بھی تعلیم کی طرح بقا کا وسیلہ ہے۔ ہم صرف روٹی نہیں، یاد اور معنی کے محتاج ہیں۔‘

لمیس کہتی ہیں کہ ان کے نئے فن پارے خوبصورتی کے لیے نہیں، زندہ ہونے کے اعلان کے لیے ہیں۔

’جنگ کے دوران میں نے جو کچھ بنایا، وہ میرے اندر کا درد تھا، کوئی آرائش نہیں۔ میں صرف یہ محسوس کرنا چاہتی تھی کہ میں اب بھی زندہ ہوں۔‘

’آرٹ مزاحمت کا نرم ہاتھ ہے‘

فلم ساز اور بصری فنکار باسل المقوسی، جو کانز فلم فیسٹیول میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی فلم فرام گراؤنڈ زیرو کے شریک ہدایت کار ہیں، کہتے ہیں کہ ’میں ان آنکھوں سے دیکھتا ہوں جو شہادت کی طرف جا رہی ہیں، تاکہ یاد کے لیے ایک جگہ چھوڑ سکوں۔‘

باسل کا کہنا ہے کہ فنکار کا کام رپورٹنگ نہیں، مکالمہ ہے: ’لوگ ظلم کی تصویریں نہیں دیکھ سکتے، لیکن موسیقی، تھیٹر یا شاعری کے ذریعے اس احساس کو سمجھ سکتے ہیں۔‘

ان کے مطابق، جب گیلریاں اور تھیٹر ملبے میں بدل گئے تو سوشل میڈیا نیا سٹیج بن گیا: ’ہم اپنی تخلیقات ڈیجیٹل دنیا میں دکھا سکتے ہیں، جب تک دوبارہ اپنی جگہیں نہیں بنا لیتے۔ تخلیق کبھی رکی نہیں، پابندیوں کے باوجود جاری رہی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ثقافت بھی تعمیرِ نو کا حصہ ہے‘

باسل المقوسی کے بقول، غزہ کی تعمیر نو صرف سڑکوں اور اسکولوں تک محدود نہیں ہو سکتی: ’ثقافت کو بھی دوبارہ زندہ کرنا ہو گا، کیونکہ یہ قوم کی روح ہے۔ آرٹ مزاحمت کا نرم ہاتھ ہے، اور دانشور ہمیشہ سب سے پہلے لڑنے والا اور سب سے آخر میں گرنے والا ہوتا ہے۔‘

غزہ کے فنکاروں کے لیے، تخلیق اب محض اظہار نہیں بلکہ وجود کی تصدیق ہے۔

جہاں دنیا ملبے کو دیکھتی ہے، وہاں وہ تخلیق کی زمین دیکھتے ہیں — ایک ایسی زمین جہاں آرٹ روٹی نہیں دیتا، مگر امید ضرور زندہ رکھتا ہے۔

(بشکریہ المجلہ)

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی فن