اسرائیلی حملے میں کان کی دستاویزی فلم کی فلسطینی سٹار قتل

25 سالہ فاطمہ حسونہ، سپیدہ فارسی کی فلم ’پٹ یور سول آن یور ہینڈ اینڈ واک‘ کی مرکزی کردار تھیں۔

سپیدہ فارسی نے بتایا کہ فاطمہ حسونہ سے رابطہ قائم کرنا ان کی غزہ پر بنائی گئی دستاویزی فلم کے لیے نہایت قیمتی تجربہ تھا (فاطمہ حسونہ انسٹاگرام)

فلسطینی فوٹو جرنلسٹ فاطمہ حسونہ، جو سپیدہ فارسی کی دستاویزی فلم ’پٹ یور سول آن یور ہینڈ اینڈ واک‘ کی مرکزی کردار ہیں، غزہ میں اسرائیلی میزائل حملے میں قتل ہوگئیں۔ وہ 25 سال کی تھیں۔

پُٹ یور سول آن یور ہینڈ اینڈ واک اگلے ماہ کان میں ہونے والے فلمی میلے میں ایسوسی ایشن فار دا ڈیفیوژن آف انڈپینڈنٹ سینیما (اے سی آئی ڈی) کے حصے کے طور پر نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔

اے سی آئی ڈی آزاد فلموں کے فروغ کے لیے قائم متوازی شعبہ ہے۔

دی انڈپینڈنٹ کو دیے گئے بیان میں اے سی آئی ڈی کے منتظمین نے کہا: ’ہم، فلمساز اور اے سی آئی ڈی ٹیم کے ارکان، فاطمہ حسونہ سے اس وقت ملے جب ہمیں کان پروگرام کے دوران سپیدہ فارسی کی فلم پُٹ یور سول آن یور ہینڈ اینڈ واک کے بارے میں پتہ چلا۔

’ان کی مسکراہٹ اتنی ہی جادوئی تھی جتنی ان کی ثابت قدمی یعنی گواہی دینا، غزہ کی تصویریں لینا، بمباری کے باوجود خوراک تقسیم کرنا، دکھ اور بھوک سہنا۔ ہم نے ان کی کہانی سنی، ان کی ہر جھلک پر خوشی محسوس کی کہ وہ زندہ ہیں اور ان کے لیے فکر بھی رہی۔ کل ہمیں یہ سن کر صدمہ پہنچا کہ ایک اسرائیلی میزائل نے ان کی عمارت کو نشانہ بنایا، جس میں فاطمہ اور ان کا خاندان جان سے گیا۔

’ہم نے ایک ایسی فلم دیکھی اور اسے پروگرام کا حصہ بنایا جس میں اس نوجوان لڑکی کی زندگی کی حرارت معجزے کی طرح محسوس ہوئی۔ اب یہ وہی فلم نہیں رہی، جسے ہم سپورٹ کرنے اور تمام سینیماؤں میں پیش کرنے جا رہے ہیں، ابتدا کان سے۔ فلم ساز ہوں یا ناظرین، ہم سب کو ان کے حوصلے کی قدر کرنی ہو گی۔‘

ایک اضافی بیان میں، سپیدہ فارسی نے بتایا کہ فاطمہ حسونہ سے رابطہ قائم کرنا ان کی غزہ پر بنائی گئی دستاویزی فلم کے لیے نہایت قیمتی تجربہ تھا۔

فارسی نے کہا کہ ’میں انہیں قاہرہ میں اپنے ایک فلسطینی دوست کے توسط سے جان پائی، اس وقت جب میں غزہ تک رسائی کی بے چینی سے کوشش کر رہی تھی، بند راستوں سے ٹکرا رہی تھی، اور ایک ایسے سوال کا جواب تلاش کر رہی تھی جو بیک وقت سادہ بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔

’غزہ میں اتنے برسوں سے جاری محاصرے میں ایک انسان کیسے زندہ رہتا ہے؟ جنگ کے سائے میں فلسطینی عوام کی روزمرہ زندگی کیسی ہوتی ہے؟ ان چند مربع کلومیٹرز میں ایسی کون سی چیز ہے جسے اسرائیل اتنے بموں اور میزائلوں کے ذریعے مٹانا چاہتا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’میں، جس نے حال ہی میں ایک اور جنگ یعنی عراق اور ایران کے درمیان ہونے والی جنگ  پر مبنی فلم دا سائرن مکمل کی۔ میں، جس کے کانوں میں اب بھی دھماکوں کی بازگشت گونجتی ہے، اور ایرانی لڑکپن کی یاد میں مٹی کی سی بو گلے میں محسوس ہوتی ہے۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ غزہ کے لوگ ان سب باتوں کے خلاف کیسے مزاحمت کرتے ہیں۔ وہ کس اذیت سے گزر رہے ہیں۔

’مجھے اس کا جواب خبروں یا میڈیا سے نہیں مل رہا تھا۔ میں ان کی بات براہ راست، بغیر کسی واسطے کے سننا چاہتی تھی۔

’میں غزہ میں موجود ہونا چاہتی تھی۔ لیکن میرا ’ایران میں پیدا ہونے والی‘ کے ٹھپے والا فرانسیسی پاسپورٹ مصری انتظامیہ اور اسرائیلی قبضے کے لیے یہ خواہش ناقابل قبول بنا دیتا تھا۔

’ہماری پہلی بات چیت میں ہی میں نے کیمرا اٹھایا اور فلم بندی شروع کر دی، ہماری گفتگو، فاطمہ اور میں، ان کے آس پاس جو کچھ ہو رہا تھا، اور میں ان سے کہا کہ مجھے کسی کھڑکی تک لے چلیں، چاہے وہ ان کے گھر کی ہو یا پناہ گاہ کی، جہاں بھی وہ ہو، تاکہ میں اس کھڑکی سے دیکھ سکوں۔ یوں، فاطمہ غزہ میں میری آنکھیں بن گئیں اور میں ان کے لیے دنیا پر کھلنے والی ایک کھڑکی۔

’میں نے ان لمحات کی فلم بنائی جو ہماری ویڈیو کالز کے ذریعے مجھے نصیب ہوئے، جو کچھ فاطمہ مجھے دکھا رہی تھیں وہ ولولے سے بھرپور اور زندگی سے لبریز تھا۔ میں نے ان کی ہنسی، ان کے آنسو، ان کی امیدیں اور ان کی مایوسیاں فلمائی۔ میں نے اپنے وجدان سے کام لیا، یہ جانے بغیر کہ یہ مناظر ہمیں کہاں لے جائیں گے۔ یہی تو سینیما کا حسن ہے۔ زندگی کا حسن ہے۔‘

یہ جنگ، جو اب اپنے 18 ویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے، اس وقت شروع ہوئی جب سات اکتوبر 2023 کو حماس کی قیادت میں عسکریت پسندوں نے اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں تقریباً 1200 افراد کی جان گئی اور 251 افراد کو قیدی بنا لیا گیا۔ حماس اب بھی 59 افراد کو قید میں رکھے ہوئے ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے 24 قیدی زندہ ہیں۔

جوابی کارروائی میں اسرائیل نے غزہ پر بڑا حملہ کیا، جس میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 50 ہزار سے زائد فلسطینی قتل ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا