’فخر بنوں‘ کہلانے والی مردان کی اسسٹنٹ کمشنر

مردان میں تعینات اسسٹنٹ کمشنرگل بانو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اس بات پہ زور دیا کہ لڑکیوں کی کامیابی میں والدین کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔

گل بانو نے ابتدائی تعلیم یونیورسٹی ماڈل سکول پشاور سے حاصل کی جس کے بعد انہوں نے جناح کالج فار وومن سے انٹر کیا اور پھر پشاور یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی (فیس بک)

خیبر پختونخوا کے پسماندہ ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والی گل بانو جب سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے بنوں سے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز (پی اے ایس) کی واحد خاتون افسر بنیں تو ان کی کامیابی نے علاقے کی لڑکیوں کے لیے تعلیم کی راہ ہموار کی۔

اب جب وہ مردان تحصیل کی پچاس سالہ تاریخ میں پہلی بار خاتون اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے تعینات اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں تو بقول ان کے، ایڈمنسٹریٹوعہدوں پر بھی خواتین آفیسر کے لیے راستہ کھل رہا ہے۔ آئے روز بنوں سے مرد اور خواتین اپنے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے ان سے رہنمائی حاصل کرنے کے  لیے ان کے دفتر آتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: ’بنوں سے مرد آفیسرز بھی بہت کم ہیں، مشکل سے چار پانچ ہی ہوں گے۔ میں پہلی خاتون آفیسر ہوں اور مجھ سے پہلے پی اے ایس میں کوئی خاتون نہیں ہے جبکہ پاکستان بننے کے بعد اب تک کوئی خاتون پروونشنل سروسز میں بھی نہیں ہے۔‘

ابتدائی تعلیم

بنوں کے حالات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے گل بانو کے والدین کافی عرصہ پہلے پشاور منتقل ہوگئے تھے۔ ایک گھر پشاور اور ایک بنوں میں ہونے کی وجہ سے گل بانو کی دونوں علاقوں کے معاشرتی حالات سے اچھی واقفیت ہے۔

گل بانو کے والدین محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے۔ ان کے والد انگلش پروفیسر اور والدہ سکول ٹیچر تھیں جس کی وجہ سے گھر کتابوں سے بھرا تھا اور انہیں تعلیمی اور ادبی ماحول ملا۔ ’ہم خوش قسمت تھے کہ ہمارے والدین کا تعلق محکمہ تعلیم سے تھا جس کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے میں ہمیں ان کا مکمل تعاون حاصل تھا۔‘

گل بانو نے ابتدائی تعلیم یونیورسٹی ماڈل سکول پشاور سے حاصل کی جس کے بعد انہوں نے جناح کالج فار وومن سے انٹر کیا اور پھر پشاور یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔

ان کا کہنا تھا کہ بڑے بھائی کی سی ایس ایس میں کامیابی کو دیکھ کر ان میں بھی سی ایس ایس کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ انہوں نے بتایا: ’مجھے یقین نہیں تھا کہ میں امتحان میں پاس ہوجاؤں گی، تاہم شادی کے ایک سال بعد میں نے سی ایس ایس کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا اور پاکستان ایڈمنسٹریٹوگروپ جو سب میں بہترین گروپ ہے اس میں میرا انتخاب ہوا تو خاندان والے بہت خوش ہوئے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم  پی اے ایس میں انتخاب کے بعد ان کے لیے مشکل مرحلہ تھا جب انہیں ٹریننگ کے لیے لاہور جانے کا کہا گیا۔ ’مجھے خود بھی پریشانی ہوئی کہ میں اکیلی جاؤں گی اور کیا میں اس ٹریننگ کو مکمل کر پاؤں گی، لیکن ہمت نہیں ہاری اور ڈیڑھ سال کی ٹریننگ کامیابی سے مکمل کی۔‘

گل بانو کا کہنا تھا: ’میرے لیے دوسرا مشکل مرحلہ فیلڈ میں کام کرنے کا تھا کیونکہ ہمارے صوبے میں پہلے کسی خاتون اے سی نے کام بھی نہیں کیا تھا اور خیبرپختونخوا میں پہلی مرتبہ ہمارے بیچ میں سے مجھ سمیت تین خواتین اے سی نے 2016 میں کام شروع کیا اور دوسری خواتین اسسٹنٹ کمشنرکے لیے راستہ کھول دیا۔ اب تقریباً ہر سال ایک اسسٹنٹ کمشنر آتی ہیں۔‘

اسسٹنٹ کمشنر کے بطور گل بانو کی پہلی پوسٹنگ کوہاٹ میں ہوئی جو سدرن بیلٹ میں ہے اور صوبے کے دیگر علاقوں کی نسبت کنزرویٹو ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہاں عوام نے بہت تعاون کیا کیوں کہ ویسے بھی خیبرپختونخوا کے عوام آفیسرز کے لیے اچھے میزبان ہیں۔ اس کے بعد ان کی پوسٹنگ خانپور میں ہوئی اور اب وہ اسسٹنٹ کمشنر مردان تعینات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان تینوں تحصیلوں سے کوئی خاتون ایڈمنسٹریٹو آفیسر نہیں ہے۔

فخر بنوں کا لقب

گل بانو کا کہنا تھا کہ جب وہ بنوں میں رہتی تھیں تو گاؤں کے لوگوں کے لیے نئی بات ہوتی تھی کہ لڑکیاں بھی سکول اور کالج جاتی ہیں۔ لوگوں میں عام تاثر تھا کہ کالج یا یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد کیا فائدہ ہوگا۔ تاہم گل بانو کا ماننا ہے کہ تعلیم حاصل کرنے سے مرد اور خواتین دونوں یکساں فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’سی ایس ایس کے بعد مجھے بھی فکر تھی کہ گاؤں کے لوگ کیا سوچیں گے لیکن اب وہ مجھ پر فخر کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر میری فوٹو دیکھ کر اسے فخر بنوں کے لقب سے پکارتے ہیں۔ اب وہ اپنے بچوں کو بھی تعلیم کی ترغیب دیتے ہیں اور سی ایس ایس کی امتحان کی تیاری کے لیے کہتے ہیں۔‘

گل بانو کا ماننا ہے لڑکیوں کے کامیاب ہونے کے پیچھے والدین کے تعاون اور اعتماد کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا: ’ہمارے معاشرے میں والد فیصلہ سازی کرتے ہیں تو وہ اپنی بیٹیوں پر اعتماد کریں۔ وہ جو بھی انتخاب کرتی ہیں انہیں موقع فراہم کریں۔ مجھے امید ہے کہ ان کی بیٹی ان کے لیے اچھا نام کمائے گی کیونکہ میں اپنے والد کی اعتماد کی وجہ سے اپنی جاب اچھی طریقے سے ادا کر رہی ہوں۔‘

سروس میں ماحول کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے سینئرآفیسرز نے بھی انہیں بہت سپورٹ کیا۔ ’پہلے خواتین ڈرتی تھیں کہ اس شعبے میں ان کا آنا مشکل کام ہے مگر اب یہ سوچ بھی بدل رہی ہے۔ میں لڑکیوں کو پیغام دوں گی کہ یہاں تمام آفیسرز ایک دوسرے کے ساتھ ایک اچھے ماحول میں تعاون کررہے ہیں۔ وہ بلا جھجک اس شعبے میں آئیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں اس وقت پانچ خواتین اسسٹنٹ کمشنرمختلف تحصیلوں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں جبکہ ان کے آنے کے بعد اب پروونشل سروس کمیشن میں کامیاب خواتین اسسٹنٹ کمشنر کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔

مردوں کے درمیان کام کرنے کے تجربے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ جب کام پر فوکس ہو اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا ارادہ ہو تو کوئی مشکل راستہ نہیں روکتی۔ ’ابھی تک جہاں بھی کام کیا ہے اپنے گول حاصل کیے ہیں۔ میں دعویٰ کرتی ہوں کہ میری کارکردگی کسی مرد آفیسر سے کم نہیں ہے۔ مردانہ سوسائٹی کا ہونا کسی خاتون آفیسرپر اثرانداز نہیں ہوتا کیونکہ جہاں پر قانون کی عمل داری کی ضرورت ہو تو ان کے پاس اختیار ہوتا ہے اور وہ صحیح طریقے سے اپنی فرائض ادا کرسکتے ہیں۔‘

ان سے سوال کیا گیا کہ کام کے دوران انہیں کیا مشکلات پیش آتی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ مشکلات تو ہیں لیکن اگر مشکلات کو دیکھا جائے تو پھر آگے جانا مشکل ہو جائے گا۔

گل بانو نے کہا: ’اس پدرسری معاشرے میں مردوں کے ساتھ بعض اوقات بات کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مردان میں پہلی بار لوگوں سے ملاقات شروع ہوئی تو کچھ نےکہا کہ کس طرح اس خاتون آفیسرسے بات کریں گے۔ یہاں تک کہ میں نے یہ بھی سنا کہ اب یہ خاتون ہمارے فیصلے کریں گی۔ میں میرٹ پربحیثیت اسسٹنٹ کمشنر مردان تعینات ہوئی ہوں تو اب یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں لوگوں کے مسائل حل کروں اور پبلک سروس ڈیلیوری بھی کروں۔‘

خواتین کے لیے مثال

گل بانو کا کہنا ہے کہ جب وہ اس فیلڈ میں آئیں تو کوئی خاتون آفیسر نہیں تھی اور اب ان کے آنے کے بعد دوسری خواتین آفیسر بھی انتظامی عہدوں پر آنا شروع ہوئی ہیں۔ ’میں جہاں پر ڈیوٹی سرانجام دیتی ہوں وہاں دیہاتی علاقوں میں بھی جاتی ہوں اوراسی سوچ کے ساتھ خواتین سے ملتی ہوں کہ وہ مجھے دیکھ کر اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ملک بننے سے اب تک ان عہدوں پر خواتین نہیں ہوتی تھیں اور اب ہوتے ہوتے آہستہ آہستہ سوچ بدلنے لگے گی کیونکہ تنگ نظریات کے لوگ اب بھی زیادہ ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے خواتین کے مسائل کے حوالے سے مردان میں پہلی بار خواتین کی کھلی کچہری کا انعقاد بھی کرایا جبکہ صنفی تشدد کے حوالے سے ایک ورکشاپ کا بھی انعقاد کیا۔ ’ان پروگراموں کے بعد روزانہ  کی بنیاد پر بڑی تعداد میں خواتین میرے دفتر میں اپنے مسائل لےکر آتی ہیں۔ اگر کسی خاتون کا کوئی جائز مسئلہ ہو تو اس کے حل کے لیے دفترسے جتنا بھی دور علاقہ ہو اور وہاں جانا بھی پڑے تو میں جاتی ہوں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین