وینزویلا: سیاسی ہنگامے میں عام آدمی زندہ رہنے کے لیے کوشاں

میگن سپیسیا اور آنا ونیسا ہریرو نے کئی سب سے زیادہ متاثرہ افراد کے خیالات اکٹھے کیے ہیں۔

بولیوین نیشنل پولیس کیراکس میں بچوں کے ہسپتال کے باہر تعینات ہیں۔ فوٹو۔ اے ایف پی

وینزویلا خاتمے کے دھانے پر ہے۔ دکانوں کے شیلف خالی پڑے ہیں اور خوراک مہنگی اور ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ ریکارڈ نمبر میں ملک چھوڑ کر ہمسایہ ممالک جا رہے ہیں۔ افراط زر 2019 میں ایک کروڑ فیصد تک پہنچ جائے گی۔

اس ناامیدی کے ماحول میں لوگوں کا غصہ عروج پر پہنچ رہا تھا جب گذشتہ ہفتے حزب اختلاف کے رہنما اور قومی اسمبلی کے سربراہ جوان گوآئڈو نے اپنے آپ کو عبوری صدر مقرر کر دیا۔ حالیہ نومنتخب صدر نیکولس مڈورو نے جہدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

بین الاقوامی توجہ تیزی سے دو افراد کی جانب مبذول ہے جو ملک کے کنٹرول کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ لیکن اس سیاسی رسہ کشی کے درمیان، اوسط شہری ایک ایسے ملک میں زندہ رہنے کی کوشش میں مصروف ہے جہاں تیزی سے تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے اور جہاں کھانے کی قلت، بجلی کی کمی اور پانی کی کمیابی عام ہوتی ہے۔ مخالفین کے خلاف کارروائیاں باقاعدگی سے جاری ہیں۔

حکومت مخالف مظاہرے کیراکس میں آج بھی ہو رہے ہیں۔ ناامیدی میں اضافے سے نئے گروہ گلیوں میں آ رہے ہیں۔ ان میں بعض وہ بھی ہیں جو کبھی مڈورو اور ان کے پیش رو ہوگو شاویز کے کٹر حامی تھے۔

ہم نے شہر کے باسیوں سے پوچھا کہ وہ اپنے حالات بتائیں، اور کیا یہ ان کے مظاہروں میں شریک ہونے کے ذمہ دار ہیں۔

’ہم یہاں بھوکوں مر رہے ہیں‘

اورسٹیلا ڈوناوا، 67

ڈوناوا اور ان کا خاندان جن سرکاری سہولتوں پر ان کا طویل عرصے سے انحصار تھا، کیراکس کے غریب علاقوں کے باسیوں کی طرح، اب وہ ناکافی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کا بیٹا ڈکسن برونٹ کتنی مشکل سے اپنے بچوں کی پرورش کر رہے ہیں۔ ’ہم یہاں بھوکوں مر رہے ہیں۔ اس کی نو سالہ بیٹی ہے اور سترہ سال لڑکا اور وہ ان کے لیے کچھ بھی نہیں خرید سکتا ہے۔ یہ ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔‘

ڈوناوا نے کبھی بھی مڈورو یا شاویز کو ووٹ دیا تھا لیکن ان کا بیٹا سوشلسٹ حکومت کا حامی تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس نے شاویز کو ووٹ دیا یا نہیں، لیکن اس کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں۔‘

برونٹ اور ڈوناوا کئی سرکاری پروگراموں سے فائدہ اٹھا رہی تھیں جن میں مشن ووینڈا شامل ہے جو غریبوں کو مکانات اور خوراک کی تقسیم کا پروگرام جیسے کہ ’کلیپ‘ ہیں۔ لیکن ڈوناوا کہتی ہیں کہ سرکاری خوراک کا ڈبا اکثر چینی، پاسٹا اور پاوڈر دودھ تک محدود ہوتا ہے۔

جیسے کہ یہ شہولتیں خراب ہوئیں برونٹ جو ایک وقت میں حکومت کا حامی تھا مظاہرہ کرنے والوں کے ساتھ شامل ہو کر اسے کے خاتمے کا مطالبہ کرنے لگا۔

دو ہفتے قبل وہ مظاہروں میں زخمی ہوگیا۔ اسے سکیورٹی فورسز نے قریب سے پیٹ میں گولی مار دی۔ اب وہ بستر پر دو سرجریز کے بعد لیٹا ہوا ہے جس سے خاندان پر مزید بوجھ بڑھ گیا ہے۔

بیٹے کے سراہانے بیٹھی ڈوناوا کہتی ہیں ’میں یہاں ہسپتال میں کرسی میں نہیں سو سکتی۔ یہ نہیں کہ میں اس کے مظاہروں سے متفق نہیں ہوں، وہ دیگر وینزویلنز کی طرح کر رہا ہے جو کمیونسٹ حکومت سے ناخوش ہیں۔‘

ان کے بیٹے کو لوکیمیا ہے، لیکن ہسپتال کے پاس دوائیں نہیں ہیں

لورڈس سڈینو، 41

سڈینو چھ سال قبل اپنے بیٹے کے لوکیمیا کی تشخیص کے بارے میں معلوم ہونے کے واقعے کو یاد کر کے کہتی ہیں کہ ’یہ ایسا ہے کہ دنیا پھٹ گئی ہے اور آپ اس دراڑ میں کودنا چاہتے ہیں۔‘

حالات اس وقت قابو میں تھے۔ ان کے بیٹے کو نجی ہسپتال سے وینزویلا کے سرکاری مرکزی ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں ریاست علاج کو بوجھ اٹھاتی تھی۔

 وہ کئی سال تل صحتمند رہا لیکن 2017 میں سرطان نے واپسی کی۔ یہ سڈینو کہتی ہیں وہ وقت تھا جب سب کچھ تبدیل ہوگیا۔ اسے علاج دلوانا وقت کے خلاف ایک دوڑ تھی۔

’مجھے ہر چیز خریدنی پڑ رہی تھی۔ کیموتھرپی، اینٹی بائٹکس، سوئیاں۔ لیکن اب صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہوچکی ہے۔ مجھے دستانے، کاٹن، الکوحل، پانی اور یہاں تک کہ اگر میں نے خون کا ٹیسٹ کروانا ہو تو لیبارٹری کے لیے ٹیوب بھی خریدنی پڑتی ہے۔‘

وینزویلا کے یہ مرکزی ہسپتال ملک کی صحت کی دیکھ بھال کے نظام کی تباہی کی ایک علامت بن گیا ہے۔ یہاں اکثر پانی، دوا اور یہاں تک کہ ڈاکٹر نہیں ملتے۔ حزب اختلاف کے سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ بجلی کی باقاعدہ معطلی کے نتیجے میں مریضوں کی اموات ہوئی ہیں۔

سڈینو کہتی ہیں کہ وہ احتجاج کی کبھی بھی مداح نہیں رہی لیکن ان کے بیٹے نے انہیں بتایا ہے کہ وہ ان میں شرکت میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ’ماں، میں باہر جا کر انہیں اپنے غصے سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جب میں ہسپتال میں بغیر کسی مدد کے دن گزراتا ہوں، جو میں ہر روز محسوس کرتا ہوں۔‘

’مجھے اعتماد اور امید ہے‘

سنی بالزا، 35

بالزا وینزویلن نیشنل گارڈز میں کپتان تھے اور جلد ترقی پاتے رہے۔ انہیں افسروں جن میں نیکولس مڈورو گویرا، مڈورو کے برخوردار بھی شامل تھے اعتماد حاصل ہوتا رہا۔ لیکن انہوں نے ہمیشہ اپنے اعلی افسران کے فیصلوں کی توثیق نہیں کی۔

’میں نے ان کی لائن سے کبھی اتفاق نہیں کیا۔‘

دو سال قبل وہ وینزویلا سے امریکہ بھاگ گئے جہاں وہ ایک کمپنی چلاتے ہیں۔ عبوری صدر گوائڈو نے مسلح افواج کے اراکین کے لیے معافی کا وعدہ کیا ہے جو مڈورو کی حکومت سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن بالزا نہیں جانتے کہ آیا وہ واپس جائیں گے یا نہیں۔

بالزا’ کے خیال میں انہیں معافی کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے حکومت کے اندر اس کے خلاف کام کیا۔‘ ان کی خواہش ہے کہ امریکہ میں ہونے والے احتجاج میں وہ شریک ہوں لیکن اپنے مصروفیات میں ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں۔ لیکن کئی برسوں بعد وہ اپنے ملک کے آگے بڑھنے کے امکانات دیکھ رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ’مجھے اعتماد اور امید ہے۔‘

انہیں 118 دن تک بغیر کھڑکی والے کمرے میں حراست میں رکھا گیا

لزبتھ آنز، 52

آنز جانتی ہیں کہ مخالفین کے خلاف حکومتی کارروائی کیسی ہوتی ہے۔ انہیں مئی 2017 میں گرفتار کیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ حکومت مخالف احتجاج کرنے والے گروہوں کے ساتھ شامل ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں انہیں خوارک دیتی تھی۔ میں نے انہیں پناہ کی پیشکش بھی کی۔ اسی وجہ سے وہ مجھے ماما کہتے ہیں۔‘

تقریبا 118 دن تک انہیں بغیر کھڑکی والے کمرے میں گیس کی سمگلنگ میں ملوث ایک دوسرے عورت کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ اس سال احتجاج کے خاتمے کے بعد آنز اپنی پرانی زندگی کی جانب نہیں لوٹ سکتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ جیل نے انہیں تبدیل کر دیا تھا۔

’میں اب صرف اتنا کہہ سکتی ہوں کہ میں اب ایک اچھا شخص ہوں۔ اور یہ کہ میں نے اصل شیطان کو جانا ہے۔‘

  مظاہروں کا تازہ ترین دور گزشتہ مہینے شروع ہوا، آنز نے فوجی اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے زخمی ہونے والوں کے لیے امدادی سامان اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے حالیہ مظاہروں کے دوران کم سے کم تین مظاہرین کا علاج کیا ہے۔

آنز کہتی ہیں کہ 2014 اور 2017 کے احتجاج پرتشدد لیکن بےاثر تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’احتجاج ایسا ہونا چاہیے جیسا کہ 23 تاریخ کو ہوا تھا۔‘ اس روز گوئڈیرو کی حلف برادری کے موقع پر پرامن حکومت مخالف مظاہرے ہوئے تھے۔

’میں وہاں اپنے گیس ماسک کے ساتھ ہوں گا‘

 انکی زُگستی، 60

سپین میں پیدا ہوئے لیکن وینزویلا میں پلنے بڑھنے والے زُگستی مڈورو کی جانب سے پہلی مرتبہ اقتدار میں 2013 میں آنے کے بعد سے حزب اختلاف کے احتجاج کے ساتھ رہے۔ وہ اس اختتام ہفتہ زیادہ بڑے احتجاج میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

’اس سنیچر میں اپنے گیس ماسک، ہیلمٹ اور کوٹ کے ساتھ وہاں موجود ہوں گا تاکہ میں دیکھ سکوں کہ میں دنیا کو کیا دکھا سکتا ہوں۔‘ 

زُگستی دو دہائیوں سے ایک خاندانی پرنٹگ کمپنی کے مالک تھے، جو انہیں خاندان کا خیال رکھنے میں مدد دیتی تھی۔ لیکن نقصانات بڑھتے گئے اور 2018 میں انہوں نے کاروبار بند کر دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں سے نئے لوگ احتجاج میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل ان کے مطابق اس تحریک کو درمیانے اور امیر لوگ چلا رہے تھے۔

’میں روزانہ وہی چہرے دیکھا کرتا تھا۔ لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔‘

زُگستی احتجاج کے دوران اپنا کیمرہ ساتھ رکھتے تھے اور 4 اپریل 2017 کو انہوں نے ایک یادگار تصویر لی ایک نوجوان کانگرس کے رکن کی جو پولیس کے ساتھ لڑ رہا تھا۔ انہیں اس وقت معلوم نہیں تھا کہ یہ سیاستدان دراصل گؤڈیرو ہے جو آگے چل کر ملک کے موجودہ سیاسی بحران کا اہم عنصر بن جائے گا۔

زُگستی کا کہنا ہے کہ ’ہر بار جب میں سنتا ہوں کہ وہ ایسے شخص سے جس نے سیاست میں ابھی آغاز کیا ہے، تو میں جانتا ہوں کہ یہ سچ نہیں ہے. مظاہروں کے دوران وہ ہمیشہ آگے تھا۔ مجھے وہ ہر مظاہرے میں دکھائی دیا۔‘. "

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین