سری نگر میں پولیس کی صحافیوں سے بدسلوکی

پولیس نے طلبہ کے ایک احتجاج کی کوریج کے لیے جاتے ہوئے دو صحافیوں کی پٹائی کر دی اور ان سے ان کا فون چھین لیا۔

بھارت کے زیر انتظام کشمر میں پولیس نے سری نگر میں طلبہ کے ایک احتجاج کی کوریج کے لیے جاتے ہوئے دو صحافیوں کی پٹائی کر دی اور ان سے ان کا فون چھین لیا۔

تشدد کا نشانہ بننے والے ایک صحافی آذان جاوید، جو ویب سائٹ دا پرنٹ کے لیے کام کرتے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’دوپہر میں ہم ہوال اسلامیہ کالج آف سائنس اینڈ کامرس کے طلبہ کے احتجاج کے لیے پہنچے تو پتھراو جاری تھا تاہم کالج کا گیٹ بند تھا لہذا ہم نے واپس جانے کا ارادہ کیا لیکن پولیس نے سڑک پر چند لڑکوں کو پیٹنا شروع کر دیا۔ جب ہم نے یہ دیکھا تو اس کی اپنے موبائل فونز سے عکس بندی شروع کر دی۔ اچانک رشید خان نامی پولیس افسر نے مجھ سے میرا فون چھین لیا اور باقی پولیس والوں نے ہمیں مارنا شروع کر دیا۔‘

جاوید نے یہ بھی الزام لگایا کہ ایک دوسرے پولیس اہلکار ساجد شاہ، جو ایس پی ہیں، نے ان کے خلاف نازیبہ جملے استعمال کیے جب انہوں نے ان سے اپنے فون واپس مانگے۔ ’ایس پی نے میری بےعزتی کی جبکہ دیگر پولیس والے مجھے مسلسل پیٹتے رہے۔‘

دوسرے صحافی انیس زرگر جو نیوز کلک کے ساتھ منسلک ہیں وہاں پہنچے تو ان کی شناخت چیک کرنے کے باوجود پولیس نے انہیں بھی پیٹنا شروع کر دیا۔

انیس کے بقول: ’جب میں نے پولیس افسر کو اپنا شناختی کارڈ دکھایا تو انہوں نے مجھے تھپڑ مارنا شروع کر دیے۔ مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے مجھ سے یہ سلوک میری حالیہ ایک خبر کی وجہ سے کیا جس میں سری نگر کے ریناواڑی علاقے میں پولیس کی زیادتیوں کا ذکر کیا گیا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انیس نے بتایا کہ ان کے خلاف بھی نازیبہ زبان استعمال کی گئی اور  جب انہوں نے مار پیٹ کے خلاف آواز اٹھائی تو پولیس نے ان کا تعاقب کیا۔ ’پولیس اہلکار میری جانب لپکے، انہوں نے مجھے گالیاں دیں اور دھکے بھی دیے۔ میں نے جان بچانے کی خاطر گلی کی دوسری جانب رخ کیا تو انہوں نے میرا تعاقب کیا اور گالیاں دیتے رہے۔‘

انسپکٹر جنرل پولیس ایس پی پانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے اس واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے جس کے بعد ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا: ’میں نے بھی اس واقعے کے بارے میں سنا ہے۔ رپورٹ ملنے کے بعد مناسب کارروائی کی جائے گی۔‘

انہوں نے بتایا کہ صحافیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے موبائل فون پولیس سٹیشن سے حاصل کر لیں۔    

صبح سے ہی سی آر پی ایف اور مقامی پولیس کی بھاری نفری سری نگر کے مرکز میں تعینات کی گئی تھی تاکہ وہ عوامی اجتماعات کو روکنے اور جامعہ ملیا اسلامیہ، نئی دہلی کے طلبا کے خلاف پولیس کی کارروائی کے خلاف احتجاج نہ کر سکیں۔

بھارتی پارلیمان میں شہری ترمیم بل کی منظوری کے خلاف احتجاج کرنے کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کو کیمپس کے اندر پولیس کارروائی کا سامنا کرنا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا