شہریت کے متنازع بل کی منظوری کے بعد احتجاج، ہلاکتیں اور گرفتاریاں

دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کا دھاوا؛ پولیس پر طلبہ اور سٹاف پر تشدد اور آنسو گیس استعمال کرنے کا الزام

دہلی میں متنازع شہریت قانون کے خلاف پرتشدد مظاہروں کے بعد ایک شخص ایک جلتی ہوئی بس کے سامنے سے بھاگ رہا ہے (اے ایف پی)

بھارت میں گذشہ ہفتے شہریت کے متنازع ترمیمی بل کی منظوری کے بعد سے ملک مظاہروں اور احتجاج کی لپیٹ میں ہے جہاں بڑی تعداد میں یونیورسٹی طلبہ اس بل کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ اتوار تک پر تشدد مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد چھ ہوگئی جبکہ دہلی میں سو سے زائد زخمی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں مظاہرین کے خلاف پولیس کی کارروائی کے دوران کئی طلبہ گرفتار کیے گئے۔

شمال مشرقی ریاست آسام  میں مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ میں چار افراد ہلاک ہوئے، ایک شخص مظاہروں کے دوران تشدد کا نشانہ بن کر ہلاک ہوا اور ایک شخص اپنی دکان میں سوتے ہوئے ہلاک ہوا جب دکان کو آگ لگا دی گئی۔

اتوار کو آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی میں حلات کشیدہ ہی رہے جہاں پانچ ہزار افراد نے مظاہروں میں حصہ لیا جبکہ پولیس سٹرکوں پر گشت کرتی رہی۔ مظاہرین نے متنازع قانون کے خلاف پوسٹر اٹھائے ہوئے تھے اور ’آسام زندہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دہلی میں اس قاتون کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامی میں احتجاج کے دوران پولیس سے پرتشدد جھڑپوں کے نتیجے میں سو سے زائد مظاہرین زخمی ہوئے۔

وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون  ہمسایہ مملک پاکستان، بنگلہ دیش اور پاکستان میں مسائل اور ظلم کا سامنا کرتی مذہنی اقلیتوں جیسے مسیحیوں اور ہندوؤں کو  بھارتی شہریت حاصل کرنے کا موقع دے گا۔ تاہم قانون کے ناقدین  کا کہنا ہے کہ یہ مسلم اقلیتوں کو برابر نہیں رکھتا اور اس سے بھارت کی سیکیولر جڑیں کمزور ہوئی ہیں۔

ملک بھر میں قانون کے خلاف مظاہرے اتوار کو پانچویں دن تک جاری رہے  جبکہ دہلی میں مظاہروں کا تیسرا دن تھا۔

شہریوں اور طلبہ سمیت ہزاروں مظاہرین دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے قریب  جمع ہوئے اور پولیس نے ان کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی۔ حکام کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے بسوں، گاڑیوں اور بائیکس کو نظرآتش کیا اور پولیس کے ساتھ جھڑپیں پھوٹ پڑیں۔

ہسپتال ذرائع کے مطابق جھڑپوں کے بعد سو سے زائد افراد زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے۔  

قریب میں واقع الشفا ہسپتال کے اہلکار انعام الحسن نے بتایا  کہ وہاں 80 سے زائد لوگ لائے گئے جن کو زیادہ تر فریکچر ہوئےتھے، جبکہ ہولی فیملی کے ایک ترجمان نے بتایا  کہ وہاں 26 طلبہ کاعلاج کیا گیا جنہیں معمولی چوٹیں آئیں تھیں۔

روئٹرز کے مطابق پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارچ اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور یونیورسٹی میں پناہ کے لیے بھاگے تو اہلکاروں نے یونیورسٹی پر دھاوا بھول دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس افسر چنموئے بسوال نے کہا: ’چار ہزار لوگ مظاہرہ کر رہے تھے  مگر جب ا نہوں نے بسوں کو جلایا تو پولیس نے ان کو منتشر کرنے کےلیے جو ہوسکتا تھا کیا۔ اگر یہ پر امن لوگ ہوتے تو  پر امن طریقے سے وہاں سے چلے جاتے۔‘

ان کا کہنا تھا پولیس حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے  کیمپس میں داخل ہوئی اور جھڑپوں میں چھ اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ تاہم طلبہ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی  کے اہلکاروں نے پولیس کی کارروائی کی مذمت کی۔

سینیئر فیکلٹی ممبر وسیم احمد خان نے اے این آئی کو بتایا: ’پویس کیمپس میں زبردستی داخل ہوئی۔ اسے اجازت نہیں دی گئی۔ ہمارے طلبہ اور سٹاف پر تشدد کیا گیا اور انہیں زبر دستی باہر نکالا گیا۔‘

طالب علم تحریم مرزا نے بتایا کہ طلبہ کو لائبریری میں پناہ لینی پڑی جب پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔

گذشتہ رات تک مقامی پولیس کے صدر دفتر کے باہر احتجاج جاری رہا۔ تاہم بعد میں پولیس نے گرفتار کیے جانے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ کو رہا کر دیا۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق جن 50 طلبہ کو رہا کیا گیا ہے ان کا تعلق جامیعہ ملیہ اسلامیہ سے ہے، بعد میں پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر جاری احتجاج ختم کر دیا گیا۔

پولیس کے مطابق پرتشدد مظاہرے کرنے اور شہری بسوں سمیت شہری املاک کو آگ لگانے کے الزام میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کچھ طلبہ کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔

نیوز نیشن کے مطابق کولکتہ کی جادیو سے حیدر آباد کی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی تک طلبہ نے علی گڑھ یونیورسٹی اور جامیعہ ملیہ کے طلبہ پر پولیس کے حملے کے خلاف احتجاج شروع کر دیا ہے۔

اس وقت سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی بھارت میں جاری مظاہروں اور احتجاج کے حوالے سے دو ٹرینڈ چل رہے ہیں جن میں سے ایک جامیعہ ملیہ اور دوسرا علی گڑھ مسلم یونورسٹی ہے۔ 

پریتی نامی صارف نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ پر آنسو گیس کا استعمال کر رہی ہے۔ 

 

سوشل میڈیا صارفین مسلسل تصاویر اور ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں جن میں پولیس اہلکاروں کو مبینہ طور پر طلبہ کی موٹر سائیکلوں کو توڑتے اور ان پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

منو نامی ایک صارف کی ایسی ہی ویڈیو میں پولیس طلبہ پر لاٹھیاں چلاتے نظر آہی ہے۔ 

یہ پرتشدد مظاہرے بدھ کو بھارتی پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے قانون کے بعد شروع ہوئے ہیں جس کے تحت بھارت 31 دسمبر 2014 سے قبل تین ہمسایہ ممالک سے آئے ہوئے لاکھوں تارکین وطن کو  شہریت دے گا مگر تب ہی جب وہ مسلم نہ ہوں۔

اس قانون سے بھارت کی اقلیتی مسلم برداری تو پریشان ہے ہی مگر دوسرے شہری بھی نا خوش ہیں کیونکہ اس کے تحت بنگلہ دیش کے آئے سینکٹروں ہندوؤں کو بھی شہریت ملے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا