عمران سیریز، کوالالمپور ایڈیشن

نہ وزارت خارجہ کے سربراہ شاہ محمود قریشی کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ اتنے اہم اجلاس کے بارے میں پوچھیں اور نہ عسکری قیادت کے ساتھ کوئی خاص اور گہری ڈی بریفنگ کا بندوبست کیا گیا۔ اس دوران سعودی عرب اور یو اے ای کو اس تمام منصوبہ بندی کا علم ہو گیا۔

اردوان اور مہاتیر نے کافی کوشش اور محنت سے اجتماعی خارجہ پالیسی اور مسلمان ممالک کی دگرگوں صورت حال کو درست کرنے کے لیے ایک سانچہ تیار کیا ہوا تھا (پی آئی ڈی)

وہ بھی کیا دن تھا جب طیب اردوغان اور مہاتیر محمد عمران خان کے ساتھ صرف ایک مترجم کی موجودگی میں نیو یارک میں بیٹھ کر اسلامی دنیا کے مستقبل کے بارے میں سہانے خواب بُن رہے تھے۔

اردوغان اور مہاتیر نے کافی کوشش اور محنت سے اجتماعی خارجہ پالیسی اور مسلمان ممالک کی دگرگوں صورت حال کو درست کرنے کے لیے ایک سانچہ تیار کیا ہوا تھا۔ انہوں نے سوچا تھا کہ ہم مذہب اقوام کی فہرست میں سے واحد جوہری طاقت کا نمائندہ اگر ان کے ساتھ کھڑا ہو کر آواز بلند کرے گا تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ حالات تبدیل نہ ہوں۔ ظاہر ہے انہوں نے اس بات پر توجہ تو دی ہو گی کہ مشرق وسطی سے سعودی عرب جیسے اہم ملک سمیت یو اے ای اور دوسرے ممالک کی قیادت کا ممکنہ ردعمل کیا ہو سکتا ہے۔

انہوں نے یقیناً سفارتی نفع نقصان کا ایک چارٹ بھی بنایا ہو گا جس کو لے کر وہ ملائیشیا میں ایک اسلامی اکٹھ کرنے پر باہمی طور پر رضامند ہوئے ہوں گے۔

اس ملاقات میں عمران خان کا جذبہ، یقین اور استقلال متاثر کن ہو گا۔ ہم کو علم ہے کہ خان صاحب لمحاتی جوش میں آ کر کتنے سنجیدہ اور مخلص انسان کا روپ دھار لیتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اس اکٹھ پر اپنی مہر ثبت کی ہو گی بلکہ دو قدم آگے جا کر یہ تجویز بھی دی ہو گی کہ یہ تینوں مل کر اکیسویں صدی کا سب سے بڑا، سب سے موثر اور سب سے زیادہ مستحکم اتحاد قائم کر کے 1.8 ارب مسلمانوں کی کایا پلٹ دیں گے۔ اس اجلاس کے بعد جب تینوں رہنما باہر نکلے تو وہاں پر موجود اہلکاروں اور سفارت کاروں نے ہر چہرے پر ایسا اطمینان اور شادمانی دیکھی جو اس سے پہلے ایسی کسی ملاقات کے بعد نظر نہیں آئی۔

وزیر اعظم عمران خان نے اس ملاقات میں ہونے والے وعدے، وابستگی کی قسمیں اور نئی سفارتی محبت کے تقاضے اور ضروریات سب کو خود تک ہی محدود رکھا۔ چونکہ ہمارے محترم قائد کاغذ اور قلم سے اتنا ہی اجتناب برتتے ہیں جتنا شوگر کا مریض میٹھے سے، لہذا نہ کچھ تحریر کروایا اور نہ کسی دستاویز کو اپنے مبارک ہاتھ سے کسی کے حوالے کرنے کی زحمت کی۔ بس ایک اسلامی ٹی وی چینل کی خبر نکال دی۔

اس چینل کو بنانے کے لیے انہوں نے پاکستان کی طرف سے سب سے ماہر میڈیا شخصیت ڈی جی آئی ایس پی آر کو ذمہ داریاں سونپنے کا پلان بنایا۔ اس پلان سے وزیر اعظم عمران خان کے وژن کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا لیکن چونکہ اس سہ فریقی میٹنگ کے باقی معاملات مخفی تھے لہذا سفارتی اور عسکری حلقوں کے لیے یہ جاننا مشکل تھا کہ عمران خان پاکستانی قوم کو ایک ذاتی قسم کے اجلاس میں کن اہداف کے حصول پر مامور کرنے کا سمجھوتہ کر آئے ہیں۔

مہاتیر محمد اور طیب اردوغان اپنی سر زمین پر واپس آنے کے بعد اس اجلاس میں طے شدہ معاملات اور عمران خان کی طرف سے کیے جانے والے عہد کے ممکنہ روشن امکانات کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے جُت گئے۔ انہوں نے اپنے سفارت خانوں کو احکامات جاری کیے۔ اتنی بڑی کانفرنس منعقد کروانے کے لیے جتنے پاپڑ بیلے جا سکتے تھے ان کا بندوبست کیا۔ ماحول کو سازگار بنانے کے لیے اور سعودی عرب اور یو اے ای کو راضی کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا۔

وزیر اعظم عمران خان بہرحال واپس آ کر اپنے پسندیدہ مشاغل میں دوبارہ مصروف ہوگئے۔ نواز شریف اور آصف زرداری کو میڈیا کے ذریعے پھینٹی لگوانا اور عثمان بزدار کے تحفظ میں ہر قسم کی دھمکی اور ترغیب کا مقابلہ کرنے جیسے اہم قومی معاملات کو ایک نئی توانائی کے ساتھ سنبھالنا شروع کر دیا۔ نہ وزارت خارجہ کے سربراہ شاہ محمود قریشی کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ اتنے اہم اجلاس کے بارے میں پوچھیں اور نہ عسکری قیادت کے ساتھ کوئی خاص اور گہری ڈی بریفنگ کا بندوبست کیا گیا۔ اس دوران سعودی عرب اور یو اے ای کو اس تمام منصوبہ بندی کا علم ہو گیا۔

 یہ دونوں ممالک ہر اہم اور سنجیدہ قیادت کے تحت چلنے والے ملک کی طرح اپنے مفادات کے تحفظ میں کسی بھول چوک کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ان کے یہاں قومی مقاصد ریت پر کھینچی ہوئی لکیریں نہیں ہوتے بلکہ زمین میں گڑے وہ پہاڑ ہیں جو ہر تند طوفان کا مقابلہ جواں مردی سے کرتے ہیں۔ آپ ان سے لاکھ اختلاف کریں لیکن یہ بات اپنی جگہ ثابت ہے کہ یہ ممالک جب کسی نشانے پر آنکھ رکھ لیتے ہیں تو دنیا ادھر سے ادھر کر دیتے ہیں۔

سفارتی یکسوئی صرف سعودی عرب یا یو اے ای تک ہی محدود نہیں۔ ہر ذی شعور اور بالغ ذہن رکھنے والی قیادت اپنے قوم و ملک کی عزت اور وقار کا ہر حال میں تحفظ کرنا جانتی ہے۔ شمالی کوریا سے لے کر امریکہ تک، بھارت سے ایران تک، ٹرمپ، شی، مہاتیر اور اردوغان تک ہر ملک اور قیادت کی ایک ہی صفت ہے۔ سفارتی کامیابی اور ناکامی بین الاقوامی سیاست کا حصہ ہے۔ ہر کوئی اس دشت میں سرخرو نہیں ہوتا لیکن سر اٹھا کر چلتے سب ہیں۔ مٹنے کو گرنے پر ترجیح دیتے ہیں۔ وقتی لچک دکھاتے ہیں لیکن دباؤ پڑنے پر پھٹے غبارے کی طرح زمین کے ساتھ چپک نہیں جاتے۔

نیو یارک میں ہونے والے اجلاس پر مشرق وسطی سے جو طوفان اٹھا وہ سیدھا راولپنڈی اور اسلام آباد کے ساحلوں پر آن گرا۔ ہم نے لاکھ وضاحتیں دیں، منت اور چالاکی سب کچھ استعمال کیا، ہم نے یہاں تک کہہ دیا کہ کوالالمپور کے اجلاس میں ہم جا کر آپ کی نمائندگی کریں گے اور یہاں پر اکٹھے ہوئے تمام ممالک کو یہ باور کروائیں گے کہ سعودی عرب اور یو اے ای کے بغیر اس کاوش کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن قرض دینے والا ہاتھ پھیلے ہوئے دامن کو چھوڑ کر نرخرے تک پہنچ گیا۔

اس کے بعد جو ہوا اس کی مثال ہماری سفارتی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی اور نہ بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں کوئی ایسا واقعہ موجود ہے کہ ایک ملک کا وزیر اعظم ایک بین الاقوامی کمٹمنٹ سے اس طرح بھاگے۔ مگر ہم نے یہ بھی کر دکھایا۔ ماتھے پر سیاہی ملی۔ اب حالات یہ ہیں کہ سعودی عرب اور یو اے ای تمام تر سفارتی تدبر اور بردباری کے باوجود اپنا غصہ چھپا نہیں پا رہے۔ عربوں کی روایت میں اس قسم کی قلابازیاں بدترین دشمنی سے بھی بری سمجھی جاتی ہیں۔ اگرچہ ملائیشیا نہ جا کے ہمارے حکمرانوں نے دبئی اور ریاض سے تعلقات کو بالکل تلپٹ ہونے سے بچا لیا ہے لیکن آنے والوں دنوں میں وہ دوستانہ رویے جن کو سوچ سوچ کر بنی گالہ میں بغلیں بجا کرتیں تھیں ان ممالک کے ایوانوں سے ناپید ہوتے نظر آئیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فوج کے ساتھ تعلقات پاکستان اور مشرق وسطی کے ممالک کے درمیان اس آہنی پل کی طرح ہے جو ایسے جھٹکے برداشت کر لیتا ہے اور ویسے بھی اس طرح کے جھٹکوں کی وجہ کچھ بھی ہو سیاسی حکومتیں ہی ان کی قیمت چکاتی ہیں۔ یمن میں فوج نہ بھیجنے کا فیصلہ اس وقت کی فوجی قیادت کے ساتھ مل کر کیا گیا تھا۔ لیکن ردعمل آنے پر نواز شریف نے مڑ کر جنرل راحیل شریف کو تلاش کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن وہ کہیں نظر نہیں آئے۔

اب بھی صورت حال کچھ ایسی ہی بنی ہے۔ پنڈی سے آوازیں آ رہی ہیں کہ بنی گالہ نے یہ کیا ’چوّل‘ ماری ہے۔ دوسری طرف مہاتیر محمد اور طیب اردوغان ہیں جو یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہوا ہے۔ اگر ان دونوں رہنماؤں نے وزیر اعظم عمران خان کے اپنی قوم کے ساتھ کیے جانے والے وعدوں کی فہرست پر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ بھی ڈالی ہوتی تو وہ نیو یارک کے اس کمرے میں بولے جانے والے الفاظ پر یقین کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچتے۔ ان کو پتہ ہوتا کہ 14 مہینے گزرنے کے باوجود نہ انڈوں میں سے مرغیاں نکلی ہیں اور نہ مرغیوں میں سے انڈے۔ نہ گدھوں کی برآمد کا آغاز ہوا ہے اور نہ ’رفتار کی روشنی‘ سے تیز چلنے والی ٹرین پاکستان میں کہیں نظر آئی ہے۔ وہ یہ جان سکتے کہ اربوں ڈالرز کی پاکستان میں آمد کی خبر ان کروڑ نوکریوں کی طرح ہے جن کو اسد عمر جیسے شعبدہ بازوں نے ریڑھیوں پر رکھ کر ہر محلے میں تو خوب بیچا مگر جن کا حقیقت سے کوئی رشتہ نہیں۔

اس کے علاوہ اگر مہاتیر محمد اور اردوغان وزیر اعظم کے آفس کو چلائے جانے والے نظام پر ہی غور کر لیتے تو ان کو یہ ادراک ہو جاتا کہ اس کباڑ خانے میں سے نکل کر کوئی سنجیدہ تجویز کبھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتی۔ لیکن چونکہ وہ ان معاملات سے ناآشنا تھے لہذا وہ یہ امید لگا بیٹھے کہ جو کہا جا رہا ہے اس پر عمل درآمد بھی ہو گا۔

ہمیں ان کا اور سعودی عرب اور یواے ای کی قیادت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے ہمیں مزید شرمندہ نہیں کیا۔ عمران خان حکومت نے بہرحال اپنی طرف سے بےمثال قومی شرمندگی کا بندوبست بہت خوب کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ