بھارتی ریاست اتر پردیش کے ایک اعلیٰ پولیس افسر کی ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ مظاہرین کو ’پاکستان چلے جانے‘ کا کہہ رہے ہیں۔
ناقدین نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بھارتی قانون جس میں مسلمانوں کے دیگر ملکوں میں بدسلوکی کی شکار مذہبی اقلیتوں کے لیے بھارتی شہریت حاصل کرنے میں آسانی پیدا کی گئی ہے امتیازی ہے جس سے بھارت کے سیکولر آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
اترپردیش (یو پی) ملک کی سب سے گنجان آباد ریاست ہے جس کی 20 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے میں مظاہروں میں اب تک 25 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
یوپی پولیس کے اعلیٰ افسر اکھیلیش نرائن سنگھ کی ایک ویڈیو بنائی گئی ہے جس میں وہ مظاہرین سے کہ رہے ہیں کہ ’اگر آپ یہاں نہیں رہنا چاہتے تو پاکستان چلے جائیں۔‘ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے۔
اس بات کا امکان ہے کہ اس ویڈیو سے نریندرمودی کی ہندتوا کی تحریک میں مسلمانوں کو الگ تھلک کیے جانے کے خدشات کو تقویت ملے گی۔
بعد ازاں پولیس افسر سنگھ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے جو کچھ کہا وہ ان بعض مظاہرین کو جواب تھا جو پاکستان کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں۔
پولیس افسر نے ہفتے کو کہا تھا کہ ’میں نے ان حالات میں انہیں پاکستان جانے کے لیے کہا۔‘
ویڈیو پر تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف مظاہروں کے دوران پولیس کی بدسلوکی کے الزامات کی تردید کی۔
سخت گیر ہندو سوامی جن کا تعلق مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے ہے نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی سخت پالیسیوں کی بدولت ریاست میں امن بحال ہو گیا ہے۔
انہوں نے اپنے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ ’ہر بلوائی کو دھچکہ لگا ہے۔ مشکل کھڑی کرنے والا ہر شخص حیران ہے۔ یوگی حکومت کا سخت رویہ دیکھ کو ہر کوئی خاموش ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’آپ جو چاہیں کریں لیکن نقصان وہی پورا کریں گے جو نقصان پہنچائیں گے۔‘
گذشتہ ہفتے یوپی حکومت نے کہا تھا کہ وہ دو سو افراد سے زیادہ افراد سے لاکھوں روپے کا مطالبہ کر رہی ہے اور مظاہروں میں ہونے والے نقصانات پورے کرنے کے لیے مظاہرین کی جائیداد ضبط کر لی جائے گی۔
انسانی حقوق کے گروپوں نے ریاستی حکومت پر مظاہرین کے خلاف ’غیر قانونی اور مہلک ہتھکنڈے‘ استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے اور یوپی میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی مذمت کی ہے۔ ریاستی پولیس افسر ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کر چکے ہیں۔
شہریت کے نئے قانون کے تحت مسیحیوں اور دوسری مذہبی اقلیتوں کو بھارتی شہری بننے کی اجازت دی گئی ہے تاہم انہیں ثابت کرنا ہو گا کہ وہ ہمسایہ مسلم اکثریتی افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان میں اپنے مذہب کے حوالے سے جبر کا شکار ہیں۔ تاہم قانون میں مسلمانوں کو کوئی رعایت نہیں دی گئی۔
حزب اختلاف کی کانگریس پارٹی کے رہنماؤں نے’آئین بچاؤ بھارت بچاؤ‘ کے نعرے کے تحت ہفتے کو متنازع قانون کے خلف مظاہرہ کیا۔
طالب علم کارکن اکھیلیش تومار نے کہا ہے کہ ’وہ ہمیں سزا دے سکتے ہیں۔ جیل میں ڈال سکتے ہیں۔ ہماری جائیداد ضبط کر سکتے ہیں لیکن وہ ہمیں مظاہرے کرنے سے نہیں روک سکیں گے۔‘ یہ طالب علم کارکن جو کانگریس کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور یوپی کے چار مسلم اکثریتی اضلاع میں مظاہروں کو مربوط کرنے میں مصروف ہیں۔
شمال مشرقی ریاست آسام میں بھی مظاہروں کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جہاں تارک وطن طویل عرصے سے ایک جذباتی سیاسی مسئلہ چلا آ رہا ہے۔
دریں اثنا مودی کی پارٹی سے منسلک ہندو کارکنوں نے پسماندہ علاقوں میں ورکشاپس کا اہتمام کیا ہے تاکہ عوامی غصے کو کم کیا جا سکے۔
نئی دہلی میں ہندو جاگران سمیتی یا ہندو آگاہی کمیٹی کے رکن رام نریش تنور نے کہا ہے کہ ’ہمیں عام لوگوں کو حقائق کے بارے میں بتانا ہوگا جنہیں اپوزیشن شہریت کے قانون کے معاملے میں گمراہ کر رہی ہے۔‘
اضافی رپورٹنگ روئٹرز
© The Independent