بیرون ملک شادی کرنے والی ’مظلوم‘ عورتیں

پاکستان سمیت کئی ممالک میں ان لڑکوں اور لڑکیوں کو خوش قسمت سمجھا جاتا ہے جن کی شادیاں بیرون ملک ہوں۔ لیکن کئی مرتبہ ایسا نہیں ہوتا۔ ایسی ہی ایک پاکستانی لڑکی کی کہانی

جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک جن میں بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان کے نام سرفہرست ہیں - خصوصا پسماندہ علاقوں میں جہاں تعلیم اور پیسے کی کمی رہتی ہے لڑکی سے اس کی شادی سے متعلق بات نہیں کی جاتی۔  فوٹو۔اے ایف پی

پاکستان سمیت کئی ممالک میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ان لڑکوں اور لڑکیوں کو بہت خوش قسمت سمجھا جاتا ہے جن کی شادیاں بیرون ملک ہوں۔ بیرون ملک سے آنے والے رشتے کے بارے میں زیادہ پوچھ گچھ بھی نہیں کی جاتی ہے۔ جب لڑکی کا تعلق غریب اور کم پڑھے لکھے گھرانے سے ہو تو ’اچھے رشتے‘ کم آتے ہیں۔ ایسے میں اگر اچانک کوئی دور دیس سے پیغام لے کر آئے تو انکار کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ ایسی ہی ایک کہانی نگہت کی بھی ہے۔ بیرون ملک ان لڑکیوں پر کیا گزرتی ہے یہ کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی کوئی جاننا چاہتا ہے۔ ہزاروں میل کی دوری، جھوٹی بھرم بازی، خود فریبی اور خود غرضی کو جنم دیتی ہیں۔

اکثر لڑکے کے بارے میں کچھ بھی نہیں پوچھا جاتا اور اسے انتہائی امیر اور کامیاب انسان تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے خاندانوں کے لیے اگر لڑکے کا تعلق امریکہ، برطانیہ یا پھر یورپ کے کسی ملک سے ہو تو اس کے بارے میں چھان بین کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً ناممکن بھی ہوتا ہے۔ یہ معلوم کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی کہ اس کی عمر کیا ہے، صحت، شکل و سیرت اور کہیں وہ پہلے سے شادی شدہ تو نہیں۔ اس کے بچے ہیں یا نہیں۔ سب عیب چھپانے کے لیے صرف اس کا پاسپورٹ ہی کافی ہوتا ہے۔

گلی محلے کی عورتیں اس لڑکی کی قسمت پر رشک کرتی ہیں، لڑکیاں بھی خاموشی سے اپنے سسرال والوں کا ہر رویہ برداشت کرتی ہیں تاکہ ان کی خوش بختی کا بھرم قائم رہے اور ان کے خاندان کے مردوں کا سر ہمیشہ فخر سے اونچا رہے۔

کچھ ایسی ہی کہانی نگہت (تمام نام فرضی ہیں) کی بھی ہے، جن کا تعلق پاکستان کے ایک گاؤں سے تھا جو تربیلا اور منگلا ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے ہونے والی نقل مکانی کے نتیجے میں آباد ہوا تھا۔ جب وہ آٹھ برس کی تھی، ان کے والدین ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

والدین کے انتقال کے بعد نگہت کی ساری ذمہ داری ان کے تین بڑے بھائیوں کے حصے میں آئی اور اب وہی ان کی تقدیر کےکاتب بھی تھے۔ نگہت کو پڑھنے کا بہت شوق تھا مگر بھابھیوں کے کہنے پر انھیں سکول سے اٹھا کر چولہے میں جھونک دیا گیا تھا۔

ابھی نگہت صرف 15 سال کی ہی تھیں کہ ان کی چھوٹی بھابھی، جو نگہت سے صرف تین سال بڑی تھی، چاہتی تھی کے نگہت کسی بھی طرح گھر چھوڑ کر چلی جائے۔ وہ نگہت کے ساتھ ہر وقت نوکروں جیسا برتاؤ کرتی تھی۔

لیکن نگہت کو اپنے بھائیوں سے بے پناہ محبت تھی وہ ان کو کیسے چھوڑ سکتی تھی اور پھر چھوڑ کر جاتی بھی تو کہاں جاتی؟

ایک دن اچانک اس بھابی کی ماں، جو رشتے کراتی تھی، ایک بڑی عمر کے مرد کے ساتھ نگہت کے گھر آئی۔ بشریٰ نے اس شخص جس کا نام ریاض تھا اور لندن میں مقیم تھا، اپنا دور کا ماموں ظاہر کرکے تعارف کروایا۔ بھابی کی ماں نے جو رشتے میں نگہت کی چاچی بھی تھی، آتے ہی بشریٰ کو اس کے کمرے میں چلنے کو کہا۔ کمرے سے لوٹتے ہی دونوں نے نگہت کو اپنے گھیرے میں لے کر پیار سے گلے لگایا اور اسے بھابی کا ایک جوڑہ دے کر جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر اچھے سے تیار ہونے کو کہا۔

اچانک اتنی مہربانی کسی گہری سازش کی نشاندہی کر رہی تھی۔ نگہت کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا، لیکن کمرے کی طرف جاتے ہوئے اس نے بھابی کی ماں کو کہتے ہوئے سنا کہ ’پورا تین سو پاؤنڈ 300£ دینے کا وعدہ کیا ہے ریاض نے اور سو تو پیشگی بھی دے دیئے ہیں۔ بڑا پیسے والا ہے۔‘

ریاض کی عمر 50 سال سے زیادہ تھی اور وہ اس سے پہلے بھی تین شادیاں کرچکا تھا۔ نگہت کی شادی ان سے طے ہوگئی۔ ریاض نے شادی نہایت خاموشی سے کرنے کو کہا۔

اس نے شادی کے خرچ کے ساتھ ساتھ نگہت کے بھائیوں کو بھی کچھ رقم دے کر خوش کر دیا تھا۔ نگہت کو بھی یہی لگنے لگا کہ آخر قسمت اس پر مہربان ہو رہی ہے اور کچھ نہیں تو اسے کم از کم اپنی بھابھیوں کے طعنوں اور مار پیٹ سے تو نجات ملے جائے گی۔

بھابی کے ماموں کی بیٹی ’طاہرہ‘ پہلے سے لیوٹن میں رہتی تھیں۔ وہ جب بھی پاکستان آتی سب اس کی بڑی آؤ بھگت کرتے تھے۔ یہ اور بات تھی کہ وہ خود برٹش تھی اوراس کا شوہر عمر میں ان سے دس سال چھوٹا تھا۔

اس طرح نگہت کی شادی فروری سنہ 1999 میں ریاض سے ہوئی۔ اس کا شوہر ایک ماہ پاکستان میں گزارنے کے بعد واپس آگیا۔ نگہت کو انگلینڈ آنے میں پانچ سال لگے۔ اس دوران ریاض صرف تین بار پاکستان آیا۔ پہلی بار ان کے پہلے بچے کی پیدائش پر، دوسری مرتبہ اپنی زمین فروخت کرنے اور تیسری بار اسے اپنے ساتھ لےجانے کے لیے۔ جب سنہ 2004 میں وہ انگلینڈ آئی تو اس کے ساتھ اس کا چار برس کا ذہنی معذور بیٹا بھی تھا۔

لندن آنے کے بعد ریاض کا رویہ بہت تبدیل ہوگیا تھا۔ اس نے آتے ہی نگہت سے اس کا پاسپورٹ لے لیا اور ان کے بیٹے کو اپنی ماں، جو اسی گھر میں رہتی تھی، کے سپرد کر دیا تاکہ وہ حکومت سے معذوری الاؤنس حاصل کرسکیں۔ اس گھر میں نگہت کی حیثیت ایک جنسی غلام یا ’سیکس سلیو‘ کی سی رہ گئی۔ نشے کا عادی ریاض جب بھی باہر جاتا، نگہت کو کمرے میں بند کرکے دروازہ باہر سے لاک کر دیتا تھا۔

 وہ نشہ کرنے کہ بعد نگہت کے جسم کو جانوروں کی طرح نوچتا، اس سے زبردستی ایسے کام کرنے پر مجبور کرتا جو شادی جیسے پاکیزہ رشتہ کی توہین ہیں اور اگر وہ مزاحمت کرتی تو وہ غصے سے پاگل ہو جاتا اور توڑ پھوڑ کر کے اسے جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیتا تھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال بیت گیا۔ نگہت کو کسی سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کا کہیں آنا جانا نہیں تھا۔ یہاں تک کہ پاکستان بھی نہیں۔ اسی سب کے درمیان نگہت پھر سے ماں بننے والی تھی۔ اس کی صحت دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی تھی۔ نگہت نے کئی بار اپنی جان لینے کا سوچا لیکن پھر اپنے معذور بیٹے فیضان اور اپنے ہونے والے بچے کے بارے میں سوچ کر وہ ایسا کرنے سے باز رہتی۔ 

سنہ 2005 میں نگہت کے ہاں دوسرے بچے کی پیدائش ہوئی۔ اس بار بھی لڑکا پیدا ہوا تھا۔ ایک دن جب فیاض صرف تین ہفتوں کا تھا، نگہت نے اسے نہلا کر نئے کپڑے پہنا کر اور سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے اچھی طرح کمبل دے کر بستر پر سلا دیا۔ نگہت باتھ روم جانے کے لیےابھی دروازے تک ہی پہنچی تھی کہ اسی وقت ریاض کمرے میں داخل ہوا۔ اس کی آنکھیں بہت زیادہ سرخ ہو رہی تھیں۔ اس نے آتے ہی نگہت کو اپنے بازوں میں جکڑ لیا۔ جب نگہت نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی تو ریاض نے اس کے گال پر زور سے تھپڑ رسید کرتے ہوئے اسے ایک موٹی سی گالی دی اور کہا کہ اس نے اس کی اتنی بڑی قیمت اس لیے ادا نہیں کی تھی کہ وہ اسے نخرے دیکھائے۔ پھر اس نے نگہت کو زبردستی اٹھا کر بستر پر پٹخا اور اس کے ساتھ زبردستی کی۔ جب ریاض فارغ ہوا تو اس نے نگہت کو لاتوں سے مارنا شروع کر دیا۔ نگہت نے اپنے سوتے ہوئے بیٹے کو اٹھایا جس کو وہ اس سارے وحشیانہ عمل کے دوران اپنی پیٹھ کے نیچے محسوس کرتی رہی تھی، تو وہ خوف اور درد سے چیخنے لگی کیونکہ اس کا بیٹا ہمیشہ کی لیے گہری نیند سوچکا تھا۔ 

پولیس نے نگہت اور اس کے شوہر ریاض کو ان کے بیٹے کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا۔ بعد میں حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے نگہت کو اس الزام سے بری کر دیا گیا، لیکن اس کے بڑے بیٹے کو سوشل سروسز نے ایسے بچوں کے لیے بنائے گئے خصوصی مرکز میں منتقل کر دیا۔ نگہت انگریزی زبان سے مکمل طور پر انجان تھی اس لیے اسے کچھ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کیا کرے اور کہاں جائے۔ یہ تھی نگہت کی دردناک کہانی جو اس نے مجھے بتائی تھی۔ میں ان دنوں لیوٹن بارو کونسل کے ساتھ کام کرتی تھی اور انگلش کے ساتھ دوسری زبانوں پر عبور ہونے کی وجہ سے میرا نام ترجمانوں کی ہنگامی فہرست پر تھا۔

نگہت کو جب معلوم ہوا کہ وہ پھر سے ماں بننے والی ہے تو وہ گھر سے بھاگنے کا سوچنے لگی، اور وہ جو کہتے ہیں کہ اگر کوشش سچے من سے کی جائے تو کامیابی ضرور ملتی ہے۔ کچھ ایسا ہی ہوا اور وہ موقع پاتے ہی بھابھی کے ماموں کی بیٹی طاہرہ کے گھر آگئی۔

طاہرہ کی شادی کو دس سال سے زیادہ ہو گئے تھے لیکن وہ ہر علاج کے باوجود ماں نہیں بن سکی تھی۔ اس نے اس شرط پر نگہت کو پناہ دی کہ وہ اس کے بچے کی کھوکھ دینے والی ماں بنے گی۔ نگہت، طاہرہ کے شوہر کے بچے کی ماں نہیں بننا چاہتی تھی سو اس نے اپنا ہونے والا بچہ طاہرہ کو گود لینے کی پیشکش کی۔ جو طاہرہ نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ بچہ تو اسے اپنے شوہر کا ہی چاہیے۔ نگہت کے بھائیوں نے اسے پاکستان واپس آنے سے منع کر دیا تھا۔ ان کے مطابق نگہت نے اپنے شوہر کے گھر سے بھاگ کر خاندان کی عزت خاک میں ملا دی تھی۔

نگہت کو سوشل ورکرز سے بھی بہت شکایتیں تھیں۔ اس نے مجھ سےاس بات کا اظہار بھی کیا تھا۔ کیونکہ وہ ایک مقامی ریڈیو پر میرا عورتوں کے حقوق سے متعلق پروگرام سنتی تھی۔ سوشل سروسز کو یہ بات پسند نہیں آئی تھی اور مجھے اس کیس سے الگ کر دیا گیا اور پھر میرا نگہت سے کوئی رابطہ نا رہا۔ لیکن اس کی زندگی کی کہانی نے میرے ذہن پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔

آج بھی ایسے کئی ریاض اور طاہرآئیں اس ملک میں حکام کی ناک کے نیچے لوگوں کی بے بسی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور کتنی ہی نگہتیں خاموشی سے اپنی اپنی زندگی کی دکھ بھری کہانی سب سے چھپا کر جینے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

برطانیہ میں پانچ لاکھ عورتیں خط غربت سے نیچے رہتی ہیں۔ وہ سینیٹری پیڈز بھی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی ہیں۔ یہاں بھی عورتیں کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور ہیں اور ان کے خلاف تشدد اور بدسلوکی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین