’برطانوی لوگ شاہی جوڑے کو تنہا ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے‘

شاہی جوڑا میڈیا پر اپنی ذاتی زندگی میں دخل اندازی اور بعض برطانوی مبصرین پر نسل پرستی کا الزام لگاتا آیا ہے۔

دی سن اور نیو یارک پوسٹ نے شاہی جوڑے کے دستبرداری کے فیصلے کو یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلا بریگزٹ کی طرز پر ’میگزٹ‘ کا نام دیا (اے ایف پی)

برطانیہ کے شاہی خاندان اور میڈیا کے درمیان تعلق بھی عجیب ہے، ان کے درمیان بداعتمادی ہونے کے باوجود بظاہر یہ ایک دوسرے کے لیے ناگزیر بھی ہیں لیکن اب شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ میگن مارکل اس سب سے فرار چاہتے ہیں۔

گذشتہ کئی برسوں سے میڈیا کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد ڈیوک اینڈ ڈچز آف سسیکس نے شاہی ذمہ داریوں سے دستبردار ہونے کا اعلان کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ شاہی جوڑے کا مقصد شمالی امریکہ میں سکونت اختیار کرنے کے ساتھ معاشی خود مختاری اور میڈیا کے جھنجھٹ سے آزادی حاصل کرنا بھی ہے، جو مسلسل ان کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔

شاہی جوڑے نے ملک میں شاہی خاندان کی کوریج کے لیے میڈیا انتظامات پر یہ کہتے ہوئے شدید تنقید کی کہ وہ عوام سے رابطے کے لیے ان کی بجائے سوشل میڈیا کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں۔

برطانوی میڈیا شاہی جوڑے کی جانب سے کی جانے والی تنقید پر ششدر رہ گیا اور انہوں نے جمعرات کو اپنے اداریوں، کالمز اور آرٹیکلز کے ذریعے اپنی مایوسی اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے شاہی جوڑے پر خوب بھڑاس نکالی۔

دی ڈیلی مرر نے اپنے اداریے میں لکھا کہ اس جوڑے کی جانب سے شہزادہ ہیری کی دادی ملکہ الزبتھ دوم کو اپنے منصوبے سے آگاہی میں ناکامی سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسی خاتون کی توہین ہے جنہوں نے اپنی تمام زندگی عوامی خدمت اور توقیر کے لیے صرف کر دی۔

دی سن اور نیو یارک پوسٹ نے شاہی جوڑے کی دستبرداری کے فیصلے کو یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلا بریگزٹ کی طرز پر ’میگزٹ‘ کا نام دیا۔

جہاں دی ٹائمز آف لندن نے شہزادہ ہیری پر ’شوخ پن‘ اور ’عیار پن‘ کا الزام لگایا وہیں ڈیلی میل نے سرخی جمائی کہ ’شاہی جوڑا درحقیقت سینیئر روئلز‘ کا مرتبہ تو چاہتا ہے لیکن انہیں آزادی اور رازداری ایک عام شہری جیسی چاہیے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ہیری اور میگن کے حیران کن فیصلے سے لوگوں نے اس جوڑے کا تقابل ملکہ برطانیہ کے چچا کنگ ایڈورڈ ہشتم سے کرنا شروع کر دیا ہے جنہوں نے 1936 میں امریکی طلاق یافتہ خاتون والس سمپسن سے شادی کے لیے بادشاہت کو ٹھوکر مار دی تھی۔

ایک بار پھر میڈیا پر بیٹھے ہوئے چڑچڑے مبصرین شہزادہ ہیری کی شاہی خاندان سے ’بغاوت‘ کا الزام ایک امریکی خاتون کے سر تھونپ رہے ہیں۔

لیکن شاہی خاندان اور میڈیا کے درمیان تعلق میں دہائیوں بعد ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔

ایڈورڈ ہشتم نے جب سمپسن کے عشق میں تختِ برطانیہ کو ٹھکرا دیا تو یہ خبر امریکہ میں سرخیوں میں آئی جبکہ برطانیہ میں خوشامدی پریس نے اس خبر کو شائع تک نہیں کیا۔

دوسری جنگ عظیم کے صدمے اور 1960 کے سماجی انقلاب نے شاہی وقار کی دھجیاں بکھیر دیں اور ان کو دی جانے والی تعظیمی روایت کو ختم کر دیا۔ کئی دہائیوں سے برطانوی میڈیا ملکہ برطانیہ اور ان کے خاندان کی تعظیم کرتا آیا ہے اور انہیں درپیش تمام مسائل میں ان کی طرف داری کرتا رہا ہے چاہے وہ ملکہ کے چار بچوں میں سے تین کی طلاقیں ہوں یا ان کے دوسرے بیٹے شہزادہ اینڈریو کے جنسی مجرم جیفری ایپسٹائن کے ساتھ دوستی۔

1981 میں شہزادہ چارلس نے جب لیڈی ڈیانا سے شادی کی تو میڈیا نے اس شاہی شادی کے ہر رخ کو پیش کیا، پھر ان کے بچوں ولیم اور ہیری کی پیدائش، ڈیانا کی مسحور کن شخصیت، ان کے خیراتی کام، ان کے تعلقات، سب کچھ میڈیا کی زینت بنا۔

چارلس اور ڈیانا دونوں نے ہی اپنی ڈوبتی ہوئی شادی کے دوران میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا، دونوں نے ٹی وی انٹرویوز میں ہمدردیاں سمیٹنے کی کوششیں کی۔ لیکن لیڈی ڈیانا، جو ایک عالمی میگا سٹار بن چکی تھیں اور پاپارازی ہمیشہ ان کا پیچھا کرتے تھے، کبھی بھی میڈیا کی توجہ کے تابع نہیں تھیں۔ وہ 1997 میں پیرس میں کار حادثے میں اس وقت ہلاک ہوگئیں جب فوٹوگرافر ان کا پیچھا کر رہے تھے۔

ڈیانا کی موت نے بادشاہت کے لیے ایک بحران پیدا کردیا تھا- شاہی خاندان قومی سوگ کے وقت غم زدہ اور میڈیا کو ’کمزور خاتون‘ کی موت کا ذمہ دار ٹہراتا دکھائی دیا۔

ڈیانا کی موت کے بعد شاہی محل اور میڈیا کے درمیان ایک طرح کا معاہدہ ہو گیا تھا،  برطانوی میڈیا نے محتاط انٹرویوز اور تصاویر کھینچے جانے کے مواقع کے بدلے بڑے ہوتے ہوئے ولیم اور ہیری کو تنہا چھوڑ دیا۔ یہ عمل آج بھی شہزادہ ولیم کے تین چھوٹے بچوں اور ان کی اہلیہ کیٹ کے ساتھ دہرایا جا رہا ہے۔

تاہم ہیری اب بھی اپنی والدہ کی موت کے لیے میڈیا کو مورد الزام قرار دیتے ہیں اور جو سابق امریکی اداکارہ میگن مارکل سے ملنے کے بعد وہ اس کھیل میں شامل نہیں رہنا چاہتے۔

2017 میں شہزادہ ہیری نے میڈیا پر الزام لگایا کہ اس نے اپنے مضامین میں مخلوط نسل سے تعلق رکھنے والی میگن کے خلاف نسل پرستانہ ہراسانی کی لہر چلانے کے لیے ہدایات دی تھیں۔

 گذشتہ برس اس جوڑے نے میل آن سنڈے کے خلاف میگن کے لکھے ہوئے خط کی اشاعت پر ایک مقدمہ چلایا تھا۔ ہیری کا کہنا تھا کہ انہیں خدشہ ہے کہ ’تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ میں نے اپنی ماں کو کھو دیا اور اب میں اپنی بیوی کو انہی طاقتور قوتوں کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔‘    
تاہم میڈیا  کا استعمال ہیری اور میگن کی سٹریٹیجی کا اہم حصہ رہا ہے جیسے لیڈی ڈیانا کا رہا تھا۔ جب یہ جوڑا اپنے ناخوش ہونے کو  عوام کے سامنے لانا چاہتا تھا تو انہوں نے آئی ٹی وی کے ایک ہمدرد صحافی کو انٹرویو دیا۔

جس میں میگن نے کہا کہ وہ   اس شدید میڈیا سکروٹنی کے لیے تیار نہیں تھیں جس کا سامنا ان کو برطانوی شاہی خاندان میں شادی کرنے سے  ہونا تھا۔
انہوں نے کہا  ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ آسان ہوگا مگر مجھے لگتا تھا کہ یہ منصفانہ تو ہوگا۔‘

اب ہیری اور میگن میڈیا کو اپنی شرائط پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ’رائل روٹے ‘سے نکل چکے ہیں جو ایک ایسا سسٹم ہے جس نے شاہی خاندان کی عوامی تقریبات کی میڈیا کوریج کا انتظام کیا جاتا ہے۔لانچ کی گئی ایک نئی ویب سائٹ پی ان کا کہنا تھا کہ یہ سسٹم انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے’ اپنی ذاتی زندگی کے لمحات عوام سے براہ راست خود شیئر کرنے میں‘ رکاوٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ مستقبل میں  وہ  ’عوامی میڈیا اداروں  اور  نوجوان صحافیوں سے بات کریں گے۔‘ انہوں نے اس ’غلط فہمی‘ کو بھی رد کیا کہ برطانوی میڈیاکے رائل کارسپونڈنٹ معلومات کے ’معتبر ذرائع‘ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیوز پیپر انڈسٹری کی ٹریڈ پبلیکیشن پریس گزیٹ کے ایڈیٹر فریڈی مین ہیو  نے کہا کہ میگن کے امریکی ٹی وی اداکار ہونے کے دور سے سبق سیکھ کر شاہی جوڑہ میڈیا کے حوالے سے ’زیادہ قابو میں اور زیادہ ذاتی‘ اپروچ لے رہا ہے۔

انہوں نے کہا: ’شاید پرنٹ میڈیا کے زوال  کا فائدہ اٹھا کر وہ  علیحدہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب اخبار  اپنے عروج پر تھے تو شاید وہ یہ سب نہیں کر سکتے تھے۔ مگر اب کیونکہ بہت کچھ  آن لائن شفٹ ہو رہا ہے تو میگن اور ہیری جیسے لوگوں کے لیے موقع ہے کہ جو معلومات باہر آ رہی ہیں وہ اس پر قابو پا سکیں۔‘

35 سالہ ہیری ملکہ ایلزبیتھ  کے پوتے اور شاہی تاج کی جاں نشینی کی دوڑ میں چھٹے نمبر پر ہیں۔   وہ شاہی خاندان کے سب سے زیادہ پہچانے جانے والے رائلز میں سے ہیں اور اپنی پوری زندگی عوام کی نظر میں گزاری ہے۔ 

2018 میں  شہزادہ ہیری سے شادی کرنے سے   قبل 38 سالہ میگن  وکیلوں کے بارے میں ٹی وی شو ـ ’سوٹس‘  کی سٹار تھیں۔جوڑے کا بیٹا آرچی مئی 2019 میں پیدا ہوا تھا۔

شادی کے دو سال سے بھی کم عرصے میں یہ جوڑا  سینئیر  شاہی  حیثیت سے دست برداری کا اعلان کرنے کے بعد اب تنازعے میں گھر گیا ہے جو بدھ کو شروع ہوا جب بکنگھم پیلس نے ایک بیان میں ان کے فیصلے کو ’ڈیوک اور ڈچز کی جانب سےذاتی پیغام ‘ قرار دیا۔

تاہم  90 منٹ بعد ہی شاہی محل کی جانب سے ایک اور بیان میں  اختلاف سامنے آگیا۔ انہوں نے کہا کہ  شاہی جوڑے سے بات چیت ابھی ’ابتدائی مراحل‘ میں ہیں اور ان کے فیصلے کے پورے ہونے سے پہلے سے بہت سارے پہلوؤں پر کام کرنا باقی ہے۔

اس بیان سے ایسا لگا کہ ہیری اور میگن کا اعلان شاہی خاندان کو اچانک ہی ملا۔  

بیان میں کہا گیا: ’ہم ایک  مختلف نقطہ نظر اپنانے کی ان کی خواہیش  کا احترام کرتے ہیں لیکن یہ پیچیدہ معاملات ہیں جن پر عمل کرنے میں وقت لگے گا۔‘

اس بیان نے بہت سے سوالوں کو جنم دیا: ہیری اور میگن کہاں رہنے کا سوچ رہے ہیں، اور وہ شاہی امیج کو  خراب کیے بغیر ذاتی کمائی کیسے کمائیں گے۔

فی الوقت ان کی فنڈنگ ہیری کے والد چارلس کے ذریعے آتی  ہے  ان پیسوں سے جو شزادہ چارلس کے وسیع ڈچی آف کانوال اسٹسیٹ سے بنتے ہیں۔

ہیری اور میگن کا بیان برطانیہ میں سرخیوں میں رہا اور منقسم رائے قائم کی۔

کچھ لوگوں نے میگن اور ان مسائل کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے انھیں مشہور برطانوی بینڈ بیٹلز کے گلوکار جون لینن کی بیوا  یوکو انو سے تشبیہ دی، جن کو  بینڈ کے علیحدہ ہونے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔

لندن کے مشہور مادام تساد میوزیم  ، جو مشہور لوگوں کے مومی بت رکھنے کے لیے جانا جاتا ہے، نے اپنے شاہی خاندان کے سیکشن سے ملکہ برطانیہ اور ان کے شوہر کے برابر کھڑے ہیری اور میگن کے مجسمے ہٹا دیے۔ 

شاہی خاندان کے سپر فین جون لوفری نے کہا: ’ہمیں ان کے عام زندگی جینے پر اعتراض نہیں ۔ جو بات ہمیں پسند نہیں آئی وہ یہ تھی ملکہ کو اس بارے میں کچھ بتایا ہی نہیں گیا۔  انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ کے لوگ شاہی جوڑے کو ملک سے باہر ’تنہا ہوتے ہوئے‘ نہیں دیکھنا چاہتے۔

جون لوفری نے کہا: ’ہمارے ہاں یہ ایک بحران ہے۔ ‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا