لقمان بٹ عرف ہلاکو کا قتل سیدھا سادھا کیس ہے: آر پی او گوجرانوالہ

آر پی او گوجرانوالہ طارق عباس قریشی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک سیدھا سادھا کیس ہے ، کوئی گینگ وار نہیں ہے نہ کوئی سیاسی پشت پناہی، خوش قسمتی کی بات ہے کہ ہلاکو پکڑے گئے ورنہ پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان آتا۔ 

ہفتے کے روز محمد لقمان بٹ گوجرانوالہ میں مقدمات کی تفتیش کے لیے جاتے ہوئے پولیس حراست میں ہلاک ہو گئے۔ (تصویر: ٹریبیون نیوز)

انڈونیشین پولیس نے جمعرات کے روز دو سال سے روپوش پاکستانی ملزم لقمان بٹ کو گرفتار کر کے واپس بھیج دیا تھا۔ انڈونیشیا میں انٹرپول کے قومی سینٹرل بیورو کے سیکرٹری بریگیڈئیر جنرل نپولین بونا پارٹ کا کہنا تھا کہ دو برس سے شمالی سماٹرا کے ضلع آشان میں روپوش 34 سالہ محمد لقمان بٹ عرف ہلاکو کو مقامی حکام نے منگل کو گرفتار کرنے کے بعد جکارتہ میں پاکستانی سفارتی عملے کی موجودگی میں پاکستانی پولیس کے حوالے کر دیا۔

ہفتے کے روز محمد لقمان بٹ گوجرانوالہ میں مقدمات کی تفتیش کے لیے جاتے ہوئے پولیس حراست میں ہلاک ہو گئے۔  آر پی او گوجرانوالہ طارق عباس قریشی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جمعے کے روز لقمان بٹ عرف ہلاکو کو گوجرانوالہ لایا گیا۔ انہیں یہاں لانے کے لیے ہماری ٹیم نے بہت محنت کی۔ ہماری ٹیم ڈھائی ماہ سے انڈونیشیا میں مقیم تھی اور ہلاکو کی تلاش میں ہم تھائی لینڈ، انڈونیشیا، ملائیشیا میں مسلسل سرگرداں تھے کیوں کہ یہ دس سال سے مفرور تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بیچ میں لقمان بٹ پاکستان آتے تھے، کارروائیاں کرتے اور پھر پولیس سے بچ نکلتے تھے۔ ان کے خلاف 26 مقدمات درج ہیں جن میں تین قتل، کچھ اقدام قتل اور بھتہ خوری کے مقدمات شامل ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’جب انڈونیشین پولیس نے انہیں پکڑا اور اپنے پاس زیر حراست رکھا تو انہیں وہاں موبائل فون پر انٹرنیٹ  استعمال کی اجازت دے رکھی تھی اوراس طرح یہ زیر حراست بھی واٹس ایپ پر اپنا بھتہ خوری کا بزنس جاری رکھے ہوئے تھے۔ یہ لوگوں کو فون پر دھمکیاں بھی دیتے تھے کہ جب میں رہا ہوں گا تو ایک ایک کو نمٹ لوں گا۔‘

آر پی او گوجرانوالہ نے ایک صنعت کار کا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے یہ بتایا کہ ’انہوں نے پولیس کو فون کر کے کہا کہ ہلاکو نے ان سے بے تحاشا بھتہ وصول کیا اور انہوں نے  تو اس کے سر کی قیمت پچاس لاکھ روپے رکھی ہوئی تھی کہ اگر پولیس لقمان بٹ کو پکڑ لیتی ہے تو وہ یہ پیسے  پولیس کو دیں گے۔‘ یاد رہے کہ پنجاب پولیس نے خود ہلاکو خان پہ دو لاکھ روپے نقد کا انعام رکھا ہوا تھا۔

آر پی او گوجرانوالہ کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک سیدھا سادہ کیس ہے ، کوئی گینگ وار نہیں ہے نہ کوئی سیاسی پشت پناہی، خوش قسمتی کی بات ہے کہ ہلاکو پکڑے گئے ورنہ پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان آتا۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ ’ہلاکو کے قاتل ماسٹر اعجاز کا ریکارڈ پہلے بھی مجرمانہ ہے۔ ہلاکو نے ماسٹر اعجاز کو کچھ عرصہ پہلے کسی جھگڑے کے دوران گولیاں ماریں تھیں اور شدید زخمی کر دیا تھا۔ ہلاکو انڈونیشیا سے بھی ماسٹر کو فون کر کے دھمکاتے تھے کہ وہ اپنا بندوبست کر لیں کیوں کہ  پچھلی بار تو وہ بچ گئے تھے اس بار انہیں نہیں چھوڑا جائے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 طارق عباس کا کہنا تھا کہ ’جب ماسٹر کو معلوم ہوا کہ ہلاکو پولیس حراست میں ہے تو ماسٹر نے ہلاکو کو مارنے کا ارادہ کر لیا۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ ’جب ہفتے کے روز پولیس ہلاکو کو مقدمات کی تفتیش کے لیے  ڈسکہ روڈ وزیر آباد لے جا رہی تھی تو پر انی چونگی ڈسکہ روڈ کے قریب ماسٹر اعجاز سمیت ملزم ہلاکو کے مخالفین  نے فائرنگ کر کے ہلاکو کو قتل کر دیا۔‘

’خوش قسمتی سے اس حملے میں گولیوں کی زد میں کوئی پولیس اہلکار نہیں آیا البتہ پولیس کی گاڑیوں پر کافی گولیاں لگیں۔‘

آر پی او گوجرانوالہ نے ہلاکو کے ماضی کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’لقمان بٹ عرف ہلاکو کا گوجرانوالہ ریجن میں بہت بڑا نیٹ ورک تھا اور یہ بہت بڑے کرمنل تھے۔ لقمان بٹ پورے ریجن  میں دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ ماضی میں ان کے کئی شوٹر پولیس مقابلوں میں مارے گئے، اور بہت سے شوٹر ابھی باقی ہیں جن کی ہم ہلاکو سے نشان دہی کروانا چاہ رہے تھے مگر وہ انہیں قتل کر دیا گیا۔‘

’اب ہم ان شوٹرز کو پکڑنے کا کچھ اور راستہ ڈھونڈیں گے۔ ان کا نیٹ ورک ابھی تک علاقے میں موجود ہے۔‘

طارق عباس کا کہنا تھا کہ ’ہلاکو نے بھتہ خوری میں کتنا پیسہ لوگوں سے لیا اس کا حساب لگانا بہت مشکل ہے، مگر وہ لاکھوں کروڑوں کی رقم بنتی ہوگی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اب لوگ ہمارے پاس آرہے ہیں اپنی شکایت لے کر۔‘ طارق عباس کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جن سے ہلاکو بھتہ وصول کرتے تھے اور وہ بیچارے خوف کے مارے پولیس کو رپورٹ نہیں کرتے تھے۔

آر پی او گوجرانوالہ طارق عباس کا کہنا تھا کہ ’پولیس نے ہلاکو کو ہلاک کرنے والے ماسٹراعجاز کو گرفتار کر لیا ہے اور ان سے تفتیش کی جارہی ہے جب کہ ہلاکو کے قتل کے حوالے سے ایک انکوائری کمیٹی بنائی ہے جو بلیک اینڈ وائٹ میں اس ساری چیز کی انکوائری کرے گی۔‘
اس کیس کی  تحقیقاتی ٹیم واقعہ سے متعلق رپورٹ چار روز میں سی پی او کو پیش کرے گی جب کہ رپورٹ کی روشنی میں غفلت کے مرتکب یا قصور وار پائے جانے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان