پاکستان نے جنسی جرائم میں ملوث مجرم برطانیہ کے حوالے کر دیا

چوہدری اخلاق حسین روشڈیل گرومنگ گینگ (برطانوی قصبے روشڈیل میں کم عمر لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر جنسی عمل کے لیے چنگل میں پھنسانے والے گروہ) کے رکن ہیں، جن کے خلاف ریپ کے الزام میں مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔

چوہدری اخلاق حسین کو  ہفتے کے روز پاکستان کے صوبے پنجاب سے حراست میں لیا گیا اور منگل کو برطانیہ واپس لایا گیا۔ (تصویر: گریٹر مانچسٹر پولیس)

برطانیہ میں ریپ کے مقدمے کے درمیان فرار ہونے والے سزا یافتہ شخص کو پولیس کے ذریعے پاکستان سے گرفتار کرنے کے بعد برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

42 سالہ چوہدری اخلاق حسین روشڈیل گرومنگ گینگ (برطانوی قصبے روشڈیل میں کم عمر لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر جنسی عمل کے لیے چنگل میں پھنسانے والے گروہ) کے رکن ہیں جن کے خلاف ایک لڑکی سے ریپ کے الزام میں مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔

تاہم 2015 میں مقدمے کے دوران ملزم نے دعویٰ کیا کہ ان کے ایک قریبی رشتے دار کی موت واقع ہو گئی ہے، جس پر عدالت نے انہیں برطانیہ میں ان کے رشتے دار کی آخری رسومات میں شرکت کی اجازت دی تھی۔

روشڈیل کے علاقے مے فیلڈ ٹیرس کے رہائشی اخلاق عدالت کی جانب سے دی گئی رعایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانیہ سے فرار ہو کر پاکستان میں روپوش ہو گئے۔

برطانوی عدالت نے ان کی غیرموجودگی میں اخلاق کو تین جنسی جرائم میں 19 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ان پر تین جنسی جرائم ثابت ہوئے جن میں ایک بچے کے ساتھ جنسی عمل، دو ریپ اور ایک ریپ کی سازش کا حصہ بننا شامل تھے۔

گریٹر مانچسٹر پولیس کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی شراکت داروں کی مدد سے وہ تقریباً چار سال سے اخلاق کی کھوج لگا رہے تھے۔

انہیں ہفتے کے روز پاکستان کے صوبے پنجاب سے حراست میں لیا گیا اور منگل کو برطانیہ واپس لایا گیا۔

ڈیٹیکٹیو سپرنٹنڈنٹ جیمی ڈینیئل کا کہنا تھا: ’اخلاق حسین ایک جنسی مجرم ہے، جنہیں یہ غلط فہمی تھی کہ وہ کسی دوسرے ملک فرار ہو کر اچھی زندگی کے مزے لوٹ سکیں گے جبکہ ان کے جرائم کے شکار متاثرین ان کے باطل اعمال کے نتائج بھگتیں گے اور ان سے انصاف چھین لیا جائے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جیمی ڈینیئل کا مزید کہنا تھا: ’ان (اخلاق) کی گرفتاری سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب معاملہ بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنانے والے مجرموں کا پیچھا کرنے کا ہو تو دنیا کے کسی بھی کونے سے انہیں ڈھونڈ نکالا جائے گا۔‘

پولیس آفیسر نے متاثرہ لڑکی کی بہادری اور حوصلے کو سراہتے ہوئے مزید کہا: ’مجھے امید ہے کہ اس (اخلاق حسین کی) حوالگی سے انہیں سکون نصیب ہوا ہو گا اور وہ اپنی زندگی کی تعمیر نو جاری رکھ پائیں گی۔‘

ان کا کہنا تھا: ’آج کی حوالگی سے مجوموں کو انصاف کے کہڑے میں لانے کے ہمارے عزم کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس میں کتنے برس لگے، ہم اپنے دائرہ کار میں رہ کر ہر وہ کام کریں گے جس سے اخلاق حسین جیسے خطرناک مجرموں کی گرفتاری کو یقینی بنایا جا سکے اور وہ اپنے مکروہ جرائم کی سزا بھگتیں۔‘

اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمیشن میں تعینات ڈاکٹر کرسچین ٹرنر کا اس بارے میں کہنا تھا کہ پاکستانی اور برطانوی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قانون سے بھاگنے  والے مجرموں کے لیے کوئی راہِ فرار نہیں ہے، حتیٰ کہ بین الاقوامی سرحدیں بھی نہیں۔

اخلاق حسین اب مانچسٹر کی منشل سٹریٹ کراؤن کورٹ کی جانب سے سنائی گئی جیل کی سزا بھگتیں گے۔

متاثرہ لڑکی کا کہنا تھا کہ انہیں 14 سال کی عمر سے ہی ایشیائی مردوں کے ایک بڑے گروہ نے جنسی طور پر گروم کیا تھا اور ’سینکڑوں مرد‘ انہیں جنسی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کرتے تھے۔

 یہ لڑکی اس وقت سامنے آئی جب 2012 میں عدالت کی جانب سے نو ایشیائی مردوں کو روشڈیل میں سفید فام بچیوں کو نشانہ بنانے کے سلسلے میں دی گئی سزا کی میڈیا پر خوب کوریج دی جا رہی تھی۔

یہ مقدمہ مانچسٹر پولیس کی جانب سے شروع کیے گئے ’ڈوبلٹ‘ نامی ایک آپریشن کی کڑی تھا جس میں 2003 سے 2013 کے درمیان اس قصبے میں نوجوان بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی تحقیقات کی گئیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا