’اگر بدکردار بھی ہے تو کیا ریپ کی حقدار ہے؟‘

کراچی کے واقعے میں عوام کا ردعمل دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے زنا بالجبر کو جائز قرار دیا جا رہا ہو، صرف اس لیے کہ لوگوں کی نظر میں وہ عورت ٹھیک نہیں تھی۔

کیلیفورنیا میں سٹنفورڈ  یونیورسٹی میں جنسی تشدد کے خلاف احتجاج میں  شریک ایک شخص نے ایک بینر  اٹھا رکھا ہے، جس پر درج ہے کہ  ’ریپ کی جڑیں  گہری  ہیں‘۔ تصویر: اے ایف پی

کسی کی مرضی کے بغیر اس کے ساتھ جنسی بدفعلی کرنا ریپ کہلاتا ہے اور اس مفہوم کے اعتبار سے اگر، مگر، یہ، وہ، کسی دلیل کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔

ہاں اس نے انکار کیا تھا۔ اس نے ’ناں‘ کہہ دی تھی۔ پھر چاہے وہ ریپ کرنے والے کی محبوبہ ہو، اس کی بیوی ہو، جسم فروش ہو، ناچنے والی ہو، گانے والی ہو، بد زبان ہو، شرابی ہو یا زمانے کی نظر میں کسی بھی وجہ سے بدکردار کہلائی جاتی ہو، اس کا ریپ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایسا ہوگا تو ایسی بدفعلی کی سزا بھی ہونی ہے۔

ایسا ہی ایک حادثہ گذشتہ دنوں کراچی کی ایک رہائشی خاتون کے بقول ان کی 15 سالہ بیٹی کے ساتھ پیش آیا، جن کا کہنا ہے کہ ایک شخص نے ان سے بدلہ لینے کے لیے ان کی بیٹی کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔

سوشل میڈیا پر وائرل پہلی ویڈیو میں اس ماں کا موقف تھا کہ پولیس ان کی رپورٹ درج کرنے کی بجائے ظالم کا ساتھ دے رہی ہے۔ بلآخر ان کی یہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس رپورٹ درج کرنے پر ’مجبور‘ ہو ہی گئی۔

جہاں ان کی پہلی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ہزاروں لوگوں نے ان کو انصاف دلانے کی اپیل کی تھی، وہیں چند ہی گھنٹوں کے اندر خاتون کی ایک ’نازیبا‘ ویڈیو بھی منظرعام پر آنے کی وجہ سے ہر جانب سے ان پر تھو تھو شروع ہو گئی۔

اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چند لوگوں نے ان پر بدکردار ہونے کا الزام لگا کر قانون سے اُلٹا ان ہی کو سزا دلوانے کی اپیل کر ڈالی۔

عوام کا ردعمل دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ زنا بالجبر کو جائز قرار دیا جا رہا ہو، صرف اس لیے کہ لوگوں کی نظر میں وہ عورت ٹھیک نہیں ہے۔

فرض کرتے ہیں کہ خاتون نے جھوٹا الزام لگایا ہے، لیکن عوام نے تو سچ جان کر تیر کمان سے چھوڑ دیا ہے۔ یہ وہ خیالات ہیں جو ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہاں پر اگر کسی عورت کے ساتھ زنا بالجبر ہوتا ہے تو اکثریت یہی کہتی ہے کہ عورت ہی ’بدکردار‘ ہوگی۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی بھی شخص  کسی طرح سے ’برا‘ بھی ہو تو اس کے ساتھ جنسی زیادتی تب بھی نہیں کی جا سکتی ہے۔ یہ متاثرہ شخص کا وہ حق ہے جو اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔

یہ بھی طے کر لیتے ہیں کہ برے یا بد کردار کی تعریف کیا ہے؟ ہو سکتا ہے ہم جس کو ’بد کردار‘ یا برا کہہ رہے ہوں، ہم میں سے ہی کسی اور کے لیے اس کا مفہوم الگ ہو۔

محلے داروں کا کہنا ہے کہ یہ خاتون پڑوس کے ’شریف‘ لڑکوں کو یہ کہہ کر پکڑوا دیتی تھی کہ وہ اُنہیں یا ان کی بیٹی کو چھیڑ رہے تھے۔ درخواست میں لکھی گئی یہ بات دراصل خاتون کے حق میں ہی جاتی ہے کیونکہ اگر وہ بری ہوتی تو کسی کو چھیڑچھاڑ پر اندر نہ کرواتی۔

 ویسے بھی مہذب معاشروں میں تو ’گھورنا‘ بھی اخلاقی جرم ہے، چہ جائیکہ کسی کو چھیڑنا۔

اس خاتون سے لاکھ اختلاف سہی لیکن بقول ان کے، ان کی بیٹی کے ساتھ ریپ ہوا ہے۔ محلے داروں کو ایسے وقت میں اخلاقیات کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، نہ کہ ان کو ہی اندر کروانے کی کوششیں۔

کچھ لوگوں کا الزام ہے کہ خاتون شراب پیتی اور مردوں کے ساتھ تعلقات قائم کرتی تھی۔ اگر مان لیا جائے کہ یہ درست تھا تو کیا دنیا کے ہر شراب پینے والے، ’ناجائز‘ تعلقات قائم کرنے والے شخص کے ساتھ یا اس کے بچوں کے ساتھ زنا بالجبر کرنے کی چھوٹ مل جانی چاہیے؟

ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے جرم کو چھپانے کے لیے کسی دوسرے کو غلط قرار نہ دیا جائے۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ