وزیراعلیٰ بلوچستان حاضر مگر ترقیاتی کام غائب کیوں؟

وزیراعلیٰ کی کارکردگی رپورٹ کے مطابق انہوں نے 17 ماہ کے دوران 254 اجلاسوں اور بریفنگز میں شرکت کی جب کہ سینچری کے قریب دورے کیے ہیں۔

کوئٹہ کے ایک رہائشی کے مطابق جام کمال کی حکومت بس حکومت ہے، باقی اس میں کچھ نہیں ہے۔ (تصویر: ٹوئٹر)

بلوچستان میں قائم ہونے والی حکومت کو 17 ماہ کو عرصہ ہو چکا ہے۔ یہ مخلوط حکومت ہے اور اس کی سربراہی ایک نئی قائم ہونے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے سربراہ جام کمال خان کررہے ہیں، جنہوں نے گزشتہ دنوں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں اپنی کارکردگی شیئر کی۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی ٹویٹ کے مطابق انہوں نے 17 ماہ کے دوران 254 اجلاسوں اور بریفنگز میں شرکت کی جب کہ سینچری کے قریب دورے کیے ہیں۔

وزیراعلیٰ کی کارکردگی رپورٹ کے مطابق انہوں نے اسمبلی کے 36 سیشنز میں شرکت کی، 254 میٹنگز میں شریک ہوئے، 99 وفود سے ملے، 91 سیاسی وفود سے ملاقات کی، کابینہ کے 20 اجلاسوں میں صدارت کی، 129 تقاریب میں شریک ہوئے، 38 غیر ملکی وفود سے ملے اور 99 دورے  کیے۔

یاد رہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال بعض اوقات وفاقی حکومت سے شکایت بھی کرتے نظرآتے ہیں کہ مشکل وقت میں ان کے صوبے کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔

تاہم شہریوں کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومتوں میں ایک بات واضح تھی کہ پانچ سال کے دوران زمین پر کوئی نہ کوئی کام ہوتا نظرآتا تھا لیکن اب کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے۔  

حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے جب شہریوں سے بات کی تو انہوں نے موجودہ حکومت کو ’ناکام‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’حکومت میں سب کچھ اچھا نہیں ہے اور لوگ مسائل کے گرداب میں پھنس چکے ہیں۔‘

شہریوں کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حکومت بالکل جام ہے اور زمینی حقائق وہ نہیں ہیں جو پیش کیے جاتے ہیں۔

کوئٹہ کے رہائشی عبدالکریم نے شکوہ کیا: ’موجودہ حکومت کی کارکردگی اس لیے بہتر نہیں کہ زمین پر کچھ بھی نظر نہیں آتا، وزیراعلیٰ بلوچستان صرف ٹوئٹر پر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ یہ ہورہا ہے، وہ ہورہا ہے، جو عام  آدمی کی رسائی میں نہیں ہے۔ ‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ کوئی وزیراعلیٰ آتا ہے جو بولتا ہی نہیں، کوئی بولنا چاہتا ہے لیکن اس کی آواز کا مسئلہ ہے اور کوئی ایسا بھی آیا کہ وہ صوبے میں موجود ہی نہیں رہا۔ آج بھی کوئٹہ کے مسائل جوں کے توں ہیں، حتیٰ کہ بلدیاتی الیکشن تک نہیں ہوئے جس سے شہر میں جو تھوڑی بہت ترقی ہونی تھی وہ بھی نہیں ہورہی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ساتھ ہی کریم نے سوال کیا کہ ’کیا صرف غیر ملکی دورے، اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت، سیاسی غیر ملکی وفود سے ملاقات، یہ سب ہی عوام کے مسائل کا حل ہے؟‘

ایک اور شہری محمد جمیل نے بتایا کہ موجودہ حکومت چاہے مرکزی ہو یا  صوبائی دونوں نے عوام کو کچھ نہیں دیا بلکہ شہریوں کو آئے روز مشکلات میں  ڈالا جارہا ہے۔

جمیل کے مطابق موجودہ حکومت کے آنے کے بعد ہمیشہ عوام کو خوف رہتا ہے کہ کب کس چیز کی قیمت میں اضافے کی نوید سننے کو ملے گی۔

انہوں نے بتایا: ’جام کمال کی حکومت بس حکومت ہے، باقی اس میں کچھ نہیں ہے۔ کوئی آ کر کوئٹہ شہر کی حالت دیکھ لے تو اسے پتہ چلے گا کہ یہ حکومت کس حد تک کامیاب ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ہمارے مسائل ٹوئٹر پر کارکردگی شیئر کرنے سے حل نہیں ہوں گے بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے جو شاید اس صوبے کی قسمت میں نہیں ہیں۔‘

’وزیراعلیٰ تو متحرک، لیکن زمینی حقائق کچھ اور‘

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی حکومت متحرک ضرور ہے لیکن صوبے میں ترقیاتی کام نہیں ہو رہے ہیں۔

معروف تجزیہ کار، سیاسی اور حکومتی امور پرنظر رکھنے والے سینیئر صحافی سید علی شاہ سمجھتے ہیں کہ ’وزیراعلیٰ بلوچستان ڈیجیٹل دنیا میں ایکٹو ہیں، ان کے ترجمان ایکٹو ہیں، یہ ایک اچھا پہلو ہے لیکن زمینی حقائق ذرا مختلف ہیں۔‘

سید علی شاہ کے مطابق: ’اس حکومت میں گورننس کے بہت سے مسائل موجود ہیں، ابھی تک کوئی میگا پروجیکٹس بھی سامنے نہیں آئے جن سے لوگوں کو اجتماعی فائدہ حاصل ہو۔ بلوچستان میں اصلاحات پر کام نہیں ہو رہا، یہاں ترقیاتی منصوبوں کا انقلاب لانے کی ضرورت ہے۔‘

تاہم ان کا ماننا تھا: ’اس حکومت کے دور میں سڑکیں بن رہی ہیں، کچھ دیگر کام بھی ہو رہے ہیں اور دوسرا اس حکومت کا کریڈٹ ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال ٹوئٹر پر ہی سہی موجود تو ہیں۔‘

سید علی شاہ کہتے ہیں کہ ’بلوچستان میں بھوک، افلاس، غربت اور بے روزگاری کی شرح دیگر صوبوں سے زیادہ ہے اور یہاں پر موجود بے چینی کا خاتمہ اُسی صورت میں ممکن ہے جب یہاں کے لوگوں کو سیاسی، معاشی اور آئینی اختیارات دیے جائیں۔‘

سید علی شاہ سمجھتے ہیں کہ کرپشن موجودہ حکومت میں بھی موجود ہے تاہم اب سوشل میڈیا مضبوط ہے، کوئی چیز چھپ نہیں سکتی۔ ’آج کے دور میں ہر کوئی چلتا پھرتا خبر دینے والا ہے۔ وہ اب کسی اخبار میں خبر لگانے کا انتظار نہیں کرتا بلکہ اسی وقت اسے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ماضی میں بلوچستان میں بہت سے تجربات کیے گئے ہیں، لیکن موجودہ وزیراعلیٰ جام کمال پڑھے لکھے ہیں اور ڈیجیٹل ورلڈ میں موجود ہیں۔ وہ کسی بھی فائل کو پڑھ کر ہی دستخط کرتے ہیں۔‘

گوکہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی حکومت ابتدا سے ہی اپوزیشن اور شہریوں کی تنقید کی زد میں ہے لیکن بیوروکریسی کا ماننا ہے کہ یہ نواب اکبر خان بگٹی کے بعد دوسرے وزیراعلیٰ  ہیں جو کسی فائل کو بغیر پڑھے دستخط نہیں کرتے۔

سید علی شاہ کے مطابق: ’ایک مسئلہ یہاں اور بھی موجود ہے کہ بلوچستان میں اکثر باہر سے آنے والے افسران سے ہی کام لیا جاتا ہے جو غلط بات نہیں ہے لیکن یہاں پر بھی قابل افسران موجود ہیں جن کو نظر انداز کرکے مرکز سے جونیئر افسران کو لا کر یہاں تعینات کیا جا رہا ہے۔ اس معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان