سردار اختر مینگل کی سرفراز بگٹی، جام کمال سے ٹوئیٹر پر جنگ

بلوچستان کے بڑے سیاستدان ان دنوں ٹوئیٹر پر ایک دوسرے کے خلاف تنقیدی نشتر چلاتے نظر آ رہے ہیں۔

وزیر اعلی بلوچستان جام کمال ، سینیٹر سرفراز بگٹی کی سردار اختر مینگل کے ساتھ ٹوئیٹر پر لفظی گولہ باری جاری (تصویر بشکریہ : اے ایف پی/ٹوئیٹر) ۔

یوں تو بلوچستان میں ہروقت قبائلی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں اور بعض اوقات ان لڑائی جھگڑوں میں کئی لوگوں کی جانیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں لیکن نئی ٹیکنالوجی نے میدان جنگ بدل دیا ہے اور اب سیاسی اختلافات پر آراء کے اظہار کا ذریعہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بن گئی ہیں۔

الفاظ کی ایک ایسی ہی جنگ ان دنوں بلوچستان کے چوٹی کے دو بڑے سیاست دانوں میں چھڑچکی ہے۔ 

ٹوئٹر پر یہ محاذ اس وقت کھلا جب بلوچستان میں قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل کی جانب سے نجی ٹی وی کو ایک انٹرویو میں بلوچستان حکومت اور وزیر اعلیٰ کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

انٹرویوکے دوران ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ ’وزیر اعلیٰ جام کمال خان کی تیسری نسل حکومت میں ہے، ان کو کبھی حزب اختلاف کی ہوا تک نہیں لگی کہ وہ خود تو سونے کا چمچ منہ میں لیے پیدا ہوئے ہیں اور گزشتہ حکومتوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔‘

اختر مینگل نے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ بتایا جائے کہ گزشتہ حکومتوں میں سے کونسی حکومت تھی جس میں وہ یا ان کے خاندان کے لوگ شامل نہیں تھے ابھی اگر ان کے صندوق کو کھول کر دیکھا جائے تو جتنی حکومتیں گزری ہیں ان سب سیاسی جماعتوں کے جھنڈے نظر آئیں گے۔ 

سرداراختر مینگل کے انٹرویو پر فوراً وزیر اعلیٰ بلوچستان نے ایک ٹوئیٹ کیا جس کا متن کچھ یوں تھا ’پوری زندگی اپنے ملک علاقے اور بلوچستان میں گزاری ہے سونے کا چمچ لندن اور دبئی میں زندگی گزارنے والوں نے زیادہ استعمال کیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر اعلیٰ بلوچستان نے یہ بھی کہا کہ ’میں نے اپنا بچپن ہیلپر سکول سریاب کوئٹہ اور جوانی علاقے کے لوگوں میں گزاری ہے۔ معلوم نہیں تھا کہ اختر مینگل کو میری بات اتنی تلخ لگے گی کہ وہ پرسنل کمنٹ پر آجائیں گے مگر حقیقت حقیقت ہے۔‘

جام کمال خان نے سردار اختر مینگل کو طعنہ دیا کہ ’ہم جو بھی سہی یا ادھر یا ادھر رہیں گے۔  یہ نہیں کہ وفاق میں حکومت، پی ایس ڈی پی، چھ نکات اورکمیٹیز سب مشترکہ چلائیں، جتنا ہوسکا ہے ہم نے اپنی بھرپور کوشش کرتے ہوئے اپنے علاقے اور عوام کی خدمت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے ہمارا انتخاب کیا تاکہ ہم ان کے مسائل حل کرا سکیں۔‘

جواب میں سردار اختر مینگل نے ٹویٹ کیا  کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ میرے سیاسی جواب کو جام صاحب نے پرسنل کیوں لیا میں نے صرف ان کو ان کی سیاسی تاریخ یاد دلائی میں نے آپ کے ادھر رہنے پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔‘

اختر مینگل کے اس جوابی ٹوئیٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’یہی تو میں نے کہا کہ یہ ہمیشہ سے ادھرہی رہتے ہیں۔ آپ کا ادھر رہنا آپ کو مبارک لیکن کبھی ساڈی گلی بھی آیا کرو۔ ہم نے مرکزی حکومت کو سپورٹ کے بدلے چھ نکات جس میں مسنگ پرسنز،بے روزگاری کا خاتمہ، بلوچستان کے لوگوں کو اقلیت سے بچنے کیلئے قانون سازی،کینسر ہاسپٹل، ڈیم روڈ، دیہاتوں میں بجلی اور گیس کی فراہمی، تعلیمی ادارے علاج کی سہولتیں، فیڈرل اور فارن میں بلوچستان کا حصہ، آپ نے کیا لیا وزارت اعلیٰ، وفاقی وزیر (پرزہ جات) سینٹ کا ووٹ اور بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے جس پر آپ نے آنکھیں بند کرلیں مائی باپوں کو دعائیں دو جنہوں نے چند دنوں میں تمہیں باپ بنادیا۔‘

وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور سردار اختر مینگل کی اس لفظی لڑائی میں سابق وزیر داخلہ بلوچستان اور موجودہ سینیٹر سرفراز بگٹی بھی کود پڑے جس کے دوران دونوں میں سخت ٹویٹس کا تبادلہ ہوا اور ایک دوسرے پر رکیک حملے کیے گئے۔

دوسری جانب ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی نے بھی ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں سردار اختر مینگل کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’سیاسی سوالات کو ذاتی جوابات پیش کرنا ہماری قبائلی روایات کی نفی ہے قبائلی روایات میں کسی کے خاندان یا ذات کو نشانہ نہیں بنایا جاتا ہے۔‘

لیاقت شاہوانی کی ٹویٹ کے مطابق ’حکومتی آزاد بینچوں پر بیٹھ کر وفاقی حکومت کیساتھ کندھے ملا کر چلنے والوں کی نئی حکمت عملی سمجھ اور شعور سے بالاترہوتی جارہی ہے۔ دوغلے پن کی تمام حدیں عبور کی جا رہی ہیں۔ بدعنوان سیاسی ماحول میں کسی سیاسی خاندان کے صندوق سے بندوق اور ڈالرز کی بجائے سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں کی برآمدگی معیوب نہیں ہے۔‘

صوبے میں سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر سیاسی اور قبائلی رہنماوں کی یہ لفظی جنگ صرف رہنمائی تک محدود نہیں ہے بلکہ سیاسی کارکن بھی ان پیغامات کے جواب میں تیزاور تند جملوں کا تبادلہ کررہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست