کابل میں پاکستانی سفارتخانے کے باہر دھرنا

بارہ سے زیادہ افغان حکومت کے عہدیدار اور سماجی تنظیموں کے رہنما وقتاً فوقتاً دھرنے میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں اور مظاہرین سے لاؤڈ سپیکرز کے ذریعے خطاب کر رہے ہیں تاکہ اپنی آواز کو پاکستانی سفارت کاروں تک پہنچایا جا سکے۔

افغانستان میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما منظور پشتین کی رہائی کے لیے افغان سماجی کارکنوں کے ایک گروپ نے افغانستان پارلیمان کی خاتون رکن کی قیادت میں کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے باہر دھرنا دے دیا ہے۔

منظور پشتین کو گذشتہ ماہ پی ٹی ایم کے دیگر نو اراکین کے ساتھ نفرت انگیز تقریر اور مبینہ طور پر آئینِ پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے پر پشاور سے گرفتار کیا گیا تھا۔

دھرنے کی قیادت کرنے والی افغان پارلیمنٹ کی رکن شگوفہ نورزئی نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا: ’ہمارا آغاز سے ہی یہ مقصد اور مطالبہ رہا ہے کہ منظور پشتین کو رہا ہونا چاہیے۔ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا اس لیے انہیں سلاخوں کے پیچھے رکھنا بلاجواز ہے۔‘

نورزئی کا مزید کہنا تھا کہ ’ان پر کوئی بھی جرم ثابت نہیں ہوا، ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے لاعلم ہیں کہ انہیں کس حالت میں جیل میں رکھا گیا ہے، کسی کو ان کی صحت کے بارے میں بھی معلومات نہیں ہیں۔‘

اگرچہ سفارت خانے نے ابتدا میں اس دھرنے کی مخالفت کی تھی اور افغان حکام نے سفارت خانے کے مرکزی دروازے کو بند کر دیا تھا تاہم اب پاکستانی سفارت کار مظاہرین کے مطالبات کو اول تو تسلیم ہی نہیں کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے اس پر سرکاری طور پر تبصرہ کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

نورزئی کا اس حوالے سے کہنا تھا: ’ہمیں پاکستانی سفارتخانے سے کوئی جواب نہیں دیا جا رہا لیکن ہم اپنے احتجاج کو نہ صرف جاری رکھیں گے بلکہ اسے مزید مضبوط بنائیں گے۔ ہم واپس نہیں جائیں گے بلکہ (اس تحریک) کو آگے بڑھائیں گے۔ ہر مہم کا کوئی انجام ضرور ہوتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

12 سے زیادہ افغان حکومت کے عہدیدار اور سماجی تنظیموں کے رہنما وقتاً فوقتاً دھرنے میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں اور مظاہرین سے لاؤڈ سپیکرز کے ذریعے خطاب کر رہے ہیں تاکہ اپنی آواز کو پاکستانی سفارت کاروں تک پہنچایا جا سکے۔

افغانستان میں آباد پشتون برادری منظور پشتین اور ان کی تحریک کی حمایت کرتی ہے تاہم کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس نظریے کی مخالفت کرتے ہیں۔
کابل کے ایک رہائشی احمد واصل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمیں یہاں افغانستان میں کافی مسائل کا سامنا ہے، ہمیں ان کے حل کے لیے کوششیں کرنی چاہییں۔ یہ (منظور پشتین کے حمایتی) افغانستان میں جاری خون خرابے کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے؟‘

پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ پی ٹی ایم پر غیر ملکی مدد وصول کرنے کا الزام لگاتی ہے جس سے یہ قوم پرست پشتون تنظیم انکار کرتی ہے۔

اس بارے میں پی ٹی ایم کے ایک کارکن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمیں کہیں سے کوئی مدد نہیں مل رہی تاہم یقینی طور پر عوام یہاں آتے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، ہمیں عوام کے علاوہ کسی کی بھی مدد حاصل نہیں ہے۔‘

پشتون تحفظ موومنٹ کا آغاز 2018 میں کراچی کے ایک پشتون نوجوان نقیب اللہ محسود کے مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل کے بعد ہوا تھا جس کے بعد اس نے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی اور اس تحریک کے مطالبات میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔

پی ٹی ایم کے رہنماؤں کو اکثر گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب کہ حکومت اور فوج کئی بار ان سے مذاکرات کے ذریعے ان کے ’جائز‘ مطالبات حل کرنے کا عندیہ دیتی رہی ہیں۔

پاکستانی میڈیا پر بھی پی ٹی ایم پر غیر اعلانیہ پابندی ہے جب کہ افغان میڈیا ان کے جلسے جلوسوں کی بڑے پیمانے کو کوریج دیتی ہے۔ افغان صدر خود بھی اس تنظیم کی حمایت میں ٹویٹس کرتے رہتے ہیں جن پر پاکستانی دفتر خارجہ بھی اندرونی مداخلت پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتا رہا ہے۔

اس معاملے پر ایک اور افغان کارکن کا کہنا تھا: ’صرف پاکستان ہی نہیں، ہم ہر انسان خصوصا پشتونوں کے خلاف کسی بھی طرح کے تشدد کے خلاف کھڑے ہوں گے کیوں کہ وہ ہمارا حصہ ہیں اور ان کا دفاع کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا