آسکر ایوارڈز میں دس بدترین ناانصافیاں

’بہترین‘ کیا ہے؟ اس کی وضاحت میں ہمیشہ اختلاف رائے کی گنجائش رہتی ہے۔

فلم کریش نے 2005 میں بروک بیک ماؤنٹین کو مات دے کر اکیڈمی ایوارڈ حاصل کیا۔(ریکس)

اکیڈمی آف موشن پکچر آرٹس اینڈ سائنس ہر برس مختلف کیٹیگریز کے لیے اُس سال کی ’بہترین‘ فلموں اور اداکاروں کو آسکر ایوارڈ سے نوازنے کی کوشش کرتا ہے اور ہر سال ہی وہ اس میں ناکام ہو جاتا ہے، کم از کم کئی بار ایسا ہو چکا ہے۔

’بہترین‘ کیا ہے؟ اس کی وضاحت میں ہمیشہ اختلاف رائے کی گنجائش رہتی ہے، اس کسوٹی پر ہم ’ٹوائے سٹوری تھری‘، اِنسیپشن‘ اور ’دا کنگز سپیچ‘ کے درمیان کیسے موازنہ کر سکتے ہیں؟ اور اس کے باوجود بھی ووٹروں نے 2010 میں ایسا ہی کیا۔

اکیڈمی ایوارڈز کی تاریخ میں برے انتخاب (ایسی فلموں کو ایوارڈ سے نوازنا جو اس کی مستحق نہیں تھیں) پر روشنی ڈالنا بھی اسی طرح ناممکن ہے لیکن یہاں کچھ انتہائی واضح غلطیاں بیان کی جا رہی ہیں۔ اس کا آغاز سب غلطیوں  کی ’ماں‘ سے کرتے ہیں۔

’ہاؤ گرین واز مائے ویلی‘

سٹیزن کین جیسی فلم کو پچھاڑتے ہوئے ’ہاؤ گرین واز مائے ویلی‘ نے 1941 میں بہترین فلم، بہترین ہدایت کار اور بہترین سینیما گرافی کیٹیگریز میں آسکر ایوارڈز حاصل کیے۔

ان دنوں کسی ایسے شخص کو تلاش کرنا تھوڑا مشکل کام ہے جس نے جان فورڈ کی ویلش میلوڈرامہ فلم ’ہاؤ گرین واز مائے ویلی‘ دیکھی ہو اور دوسرا یہ جاننے کے لیے تجسس نہ ظاہر کیا ہو کہ آخر اس فلم کی کیا خاص بات تھی جس نے اسے ’سیٹزن کین‘ سے بہتر بنایا تھا۔ پھر بھی ویلز، جہاں اسے فلمایا گیا تھا، میں اس فلم کے خیرخواہ موجود ہیں جو متزلزل لہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی مشکل زندگی اور اس طرح کی عام طور پر متاثر کرنے والی محبت بھری کہانیوں کی تصویر کشی سے مغلوب دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم یہ فلم اورسن ویلز کی شاہکار تخلیق (سیٹزن کین) کے قریب بھی نہیں پھٹکتی جس نے آنے والی نسل کے فلم سازوں پر لرزہ خیز اثرات مرتب کیے۔ ماضی کی یہ بے تکی یاد اب تک محفوظ ہے، یہ ایک جذباتی انتخاب تھا۔

اولیور!

اولیور نے ’2001: اے سپیس اوڈیسی‘ کو مات دے کر 1968 میں بہترین فلم سمیت چھ اکیڈمی ایوارڈز اپنے نام کیے۔ 

کیرول ریڈ نے ’اولیور ٹوئسٹ‘ ناول کے میوزیکل ورژن کو ایک وسیع پیمانے پر زندہ دلی کے معاملے کے طور پر پیش کیا جس میں وہ فگین اور بل سائکس جیسے کرداروں کو اس وقت بھی اندھیرے میں غرق کرنے سے خوفزدہ نہیں تھے جب ان کو برتری دینا ضروری تھا۔ جب کہ اس کے برعکس سٹینلے کبرک کی فلم ’2001: اے سپیس اوڈیسی‘ ایک اہم کارنامہ تھا جس نے کئی لاکھ سالوں کے ارتقا کی تصویر کشی کی تھی۔ جیسا کہ اس وقت بھی واضح ہونا ضروری تھا- اچھی خبر یہ ہے کہ کبرک نے اس فلم میں سپیشل افیکٹس کیٹیگری میں اکیڈمی ایوارڈ جیتا۔ یہ ان کا واحد مسابقتی آسکر ایوارڈ تھا، لیکن انہیں بہترین ہدایتکار اور ان کی فلم کو بہترین آرٹ ڈاریکشن کے ایوارڈز سے محروم رکھا گیا۔

مارچ آف دا پینگوئنز

مارچ آف دا پینگوئنز نے 2005 میں ’اینرون: دا سمارٹیسٹ گائے ان دا روم‘ کو شکست دیتے ہوئے بہترین دستاویزی فلم کا ایوارڈ حاصل کیا۔

اگر زیادہ لوگ پینگوئنوں کے بارے میں دیومالائی کہانی کی بجائے اینرون دیکھتے تو دنیا ایک بہتر جگہ ہوسکتی تھی۔ لیوک جیکیوٹ کی انٹارکٹکا میں فلمائی گئی دستاویزی فلم میں مشکل حالات کے باوجود کچھ حیرت انگیز منظر کشی دیکھنے کو ملتی ہے لیکن اس حقیقت کے باوجود کہ وہ یہ پرندے ایک موسم کے لیے ساتھی بنتے ہیں اور خود کفیل بننے والے اپنے بچوں سے دوبارہ کبھی نہیں ملتے، اس دستاویزی فلم کو ایک غیر سائنسی نظریے سے متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ان پرندوں کے خاندان میں موجود ’محبت‘ پر زور دیتا ہے۔

دوسری جانب وال سٹریٹ کی محبوب کمپنی اینرون کے حیران کن دیوالیہ پن پر الیکس گبنی نے مالیات جیسے خشک موضوع کو فوری اور اہم مسٔلے کے طور پر پیش کیا اور یہ قیمتی دعویٰ کرنے سے گریز کیا کہ اینرون بورڈ صرف پیسوں کے بارے میں روحانیت پر یقین رکھتا تھا۔

کریش

کریش نے 2005 میں بروک بیک ماؤنٹین کو مات دے کر اکیڈمی ایوارڈ حاصل کیا۔

حتیٰ کہ کریش کے ہدایت کار پال ہیگیس خود بھی ایسا سوچتے ہیں کہ ان کی فلم کو انگ لی کی دو مرد چرواہوں کے درمیان نازک اور المناک رومانوی تعلقات پر مبنی فلم بروک بیک ماؤنٹین کو شکست نہیں دینی چاہیے تھی۔

اور پھر بھی اکیڈمی ایوارڈ دل خراش  کہانی پر مبنی فلم کی بجائے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی بڑی کاسٹ کی فلم کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔

ہوسکتا ہے کہ وہ کسی ہم جنس پرست جوڑے پر بنائی گئی فلم کے لیے تیار نہ ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ووٹ دینے والی شخصیات نے سوچا کہ لاس اینجلس میں نسل پرستی کے بارے میں کسی فلم کو ایوارڈ دینے کے لیے یہ زیادہ ’اہم‘ موضوع ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم ایسے افراد کا ذکر محض پانچ منٹوں میں کر سکتے ہیں جو آسکر کے خراب انتخاب کے بارے میں آواز اٹھانے کے لیے اکٹھے ہوئے ہوں۔

ڈرائیونگ مِس ڈیزی

ڈرائیونگ مِس ڈیزی نے ’بورن آن دا فورتھ آف جولائی‘، ’فیلڈ آف ڈریمز‘، ’ڈیڈ پوئٹس سوسائٹی‘ اور حتیٰ کہ ایوارڈ کے لیے نامزد نہ ہونے والی فلم ’ڈو دا رائٹ تھنگ‘ کو شکست دے کر بہترین فلم کے لیے اکیڈمی ایوارڈ حاصل کیا۔ 

اگر آپ کسی اتوار کی ایک دوپہر ٹی وی آن کریں اور ’ڈرائیونگ مس ڈیزی‘ کو ٹی وی پر چلتا پائیں تو آپ کو لگے گا کہ یہ نسل پرستی کے بارے میں کچھ عجیب و غریب اور بدنما موضوع پر ایک خوبصورت اور معمولی سی فلم ہے۔ اگر کوئی آپ کو یہ بتائے کہ اس فلم نے 62ویں اکیڈمی ایوارڈز میں بہترین فلم کا ایوارڈ جیتا تھا تو آپ بجا طور پر اس فیصلے کا مذاق اڑائیں گے۔ اور پھر بھی اس فلم نے ان چار فلموں کو مات دی تھی جو اس سے کافی بہتر ہیں۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اکیڈمی جیوری سپائیک لی کی شہرہ آفاق فلم ’ڈو دا رائٹ تھنگ‘ کو بہترین فلم کیٹیگری میں نامزد کرنے میں بھی ناکام  رہی اگرچہ اس کو بہترین اوریجنل سکرین پلے اور معاون اداکار کے زمرے میں نامزد کیا گیا تھا۔  لی کو گذشتہ سال  ’بلیک کلینزمین‘ سے پہلے بہترین ہدایت کار یا فلم کے لیے نامزد بھی نہیں کیا گیا تھا۔

دا گریٹیسٹ شو آن ارتھ

دا گریٹسٹ شو آن ارتھ نے 1952 میں ’ہائی نون‘، دا کوئیٹ مین‘ اور نامزدگی سے محروم ’سنگنگ ان دا رین‘ کو ہرا کر اکیڈمی ایوارڈ اپنے نام کیا۔

یہ ایک اور شرمناک انتخاب تھا۔ اکیڈمی نے فریڈ زنیمن کی ’ہائی نون‘ اور جان فورڈ کی پسندیدہ آئرش فلم ’دی کوئیٹ مین‘ کی بجائے سیسل بی ڈی مل کی سرکس میلے پر مبنی فلم کو ایوارڈ سے نواز دیا۔

اس سے بھی بدتر بات یہ تھی کہ انہوں نے ’سنگنگ اِن دا رین‘ کو بھی اعلی ایوارڈز کے لیے نامزد نہیں کیا شاید اس وجہ سے کہ اس فلم نے اپنی برتری کو عمدہ طریقے سے برقرار رکھا تھا۔ گریٹیسٹ شو کے لیے دیے گئے ایوارڈ کو ڈی مل کے لیے ایک طرح ’کیریئر پرائز‘ کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے  لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ صرف چند سال بعد ڈی مل نے  1956 میں ’دی ٹین کمانڈنٹمنٹس‘ بنائی جو یقینی طور پر گریٹیسٹ شو  سے کئی گنا بہتر فلم تھی تاہم ’آراؤنڈ دا ورلڈ اِن ایٹی ڈیز‘ اس سال اسے شکست دے کر بہترین فلم کا ایوارڈ لے اڑی۔ لیکن پھر اس سال ’دا سرچرز‘ کو فاتح ہونا چاہیے تھا لہذا شاید اس سے بہتر حل نکل سکتا تھا۔

روبرٹو بینینی کو لائف اِز بیوٹی فل کے لیے بہترین اداکار کا ایوارڈ

روبرٹو بینینی نے ’امریکن ہسٹری ایکس‘  میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے ایڈورڈ نارٹن اور ’سیونگ پرائیویٹ رائن‘ کے مرکزی اداکار ٹام ہینکس کو شکست دیتے ہوئے بہترین اداکار کا ایوارڈ حاصل کیا۔

ایک فلم کے طور پر ’لائف اِز بیوٹی فل‘ کو بے حد تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تاہم اگر اس مزاحیہ کردار کو نبھانے والے روبرٹو بینینی آسکر میں بہترین اداکار کا اعزاز حاصل کرنے کے لیے دنیا کے معروف ترین ناظرین کی قطاروں کو نہ پھلانگتے تو کوئی بھی اس فلم نوٹس نہ لیتا۔

فلم میں روبرٹو بینینی کی یہ کوئی اتنی بھی بری اداکاری نہیں تھی تاہم یہ اس سال کی دوسری جنگ عظیم پر بنائی گئی فلموں ’سیونگ پرائیویٹ رائن‘ میں ٹام ہینکس کی کارکردگی سے بہتر نہیں تھی اور’دا تھِن ریڈ لائن‘ کے آگے تو آپ سر خم کر لیں گے۔ تاہم شاید ’امریکین ہسٹری ایکس‘ میں شاندار خوفناک کردار ادا کرنے پر ایڈورڈ نارٹن کو فاتح ہونا چاہیے تھا۔

’کراؤچنگ ٹائیگر، ہیڈن ڈریگن‘ کے لیے پیٹر پاؤ کو بہترین سینیما گرافی کا ایوارڈ

پیٹر پاؤ نے 2000 میں ’او برادر، ویر آر یو؟‘ کے راجر ڈیکنس کو شکست دے کر بہترین سینماگرافی کا ایوارڈ حاصل کیا

کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ پیٹر پاؤ نے اینگ لی کی چینی مارشل آرٹ فلم میں خوبصورت کام نہیں کیا۔ لیکن راجر ڈیکنس نے کوئز کی فلم ’او برادر ویر آر یو؟‘ میں اہم کام کیا اور پوری فلم کو ڈیجیٹل انٹرمیڈیٹ پر منتقل کرنے اور فلم کو ماضی میں دکھانے کے لیے اس کا رنگ تبدیل کر کہ اس کو سرخی مائل بھورا کر دیا۔

ان کا یہ عمل ہالی وڈ کا ایک نیا معیار بن گیا جس نے آئندہ کی دو دہائیوں کو ڈیجیٹل کلرنگ کے شعبے میں نئی ٹیکنالوجی سے روشناس کرایا۔ ماضی میں دیکھیں تو یہ عظیم تر جدت تھی اور 2000 میں ایک ایوارڈ سے اکیڈمی کو دو شرمناک دہائیوں سے بچایا جا سکتا تھا کیوں کہ راجر ڈیکنس کو سنیما گرافی کے لیے آسکر نہیں دیا گیا تھا۔

ہیلن ہنٹ کو ’ایز گُڈ ایز اِٹ گیٹس‘ کے لیے بہترین اداکارہ کا ایوارڈ

ہیلن ہنٹ نے ’مسز براؤن‘ میں مرکزی کردار ادا کرنے والی جوڈی ڈینچ اور 1997 میں ٹائٹینک میں سب کا دل موہ لینے والی کیٹ ونسلٹ کو شکست دے کر بہترین اداکارہ کا ایوارڈ حاصل کیا۔

 ہیلن ہنٹ اس مزاحیہ ڈرامہ فلم میں جیک نکولسن کے مقابل دلکش دکھائی دیں لیکن اس وقت بھی دیکھنے والوں کو ان کے کردار کا نام یاد کرنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑا (ریکارڈ کے لیے بتائے دیتے ہیں کہ فلم میں ان کے کردار کا نام کیرول تھا)۔ اگر یہ ایوارڈ معاون اداکارہ کی کیٹیگری کے لیے دیا جاتا تو شاید یہ کردار اس کے لیے مناسب تھا لیکن مرکزی کردار کے طور پر اس میں جوڈی ڈینچ کی جانب سے ملکہ وکٹوریہ کا نبھایا گیا کردار یا کیٹ ونسلیٹ کے بلاک بسٹر روز کے کردار کا مقابلہ کرنے کی بہت کم اہلیت تھی۔

اس میں ہنٹ کی اپنی کوئی غلطی نہیں ہے تاہم یہ خواتین کے غلط کردار کی علامت ہے جو اس وقت آسکر میں بھی بہت زیادہ ہے۔

ایمی ایڈمز

چھ نامزدگیوں کے باوجود انہوں نے فی الحال کسی کو شکست نہیں دی ہے۔

لیونارڈو ڈی کیپریو کو بطور روشن نوجوان سے لے کر ’یہ ان کا وقت ہے‘ تک پانچ بار نامزد کیا گیا ہے۔

دوسری جانب ایمی ایڈمز نے بہترین اداکارہ اور بہترین معاون اداکارہ کے لیے چھ نامزدگیاں حاصل کی ہیں اور انہیں بھی 2016 میں ’آرائیول‘ کے لیے نامزد کیا جانا چاہیے تھا لہذا ہمیں ’یہ ان کا وقت ہے‘ کے بیانیے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

انہیں گذشتہ سال ’وائس‘ کے لیے نامزد کیا گیا تھا لیکن جیسا کہ پیشن گوئی کی گئی تھی، وہ ریجینا کنگ سے ہار گئی جن کی ’اِف بیئلی سٹریٹ کُڈ ٹاک‘ میں کارکردگی مایوس کن تھی۔ یہ ابھی بھی ایڈمز کا وقت نہیں تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی فلم