عمران خان کے تین دشمن، تین دوست

سڑکوں پر گھسیٹنے کی خواہش کا ببانگِ دہل اظہار کرنے سے لے کر عمران خان کے خلاف بغل گیر ہو جانا، ن لیگ کا زرداری صاحب کی صفائیاں دینا اور بلاول صاحب کا انکل نواز کے گن گانے کا سلسلہ یہی بتاتا ہے کہ ’دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔‘

(اے ایف پی)

کہتے ہیں دشمن کا دشمن، دوست ہوتا ہے۔ سچ کہتے ہیں۔ پاکستان کی پچھلے 18 ماہ کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو اس ضرب المثل کی عملی تصویر، دہائیوں کے دیرینہ دشمنوں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے قابلِ رشک باہمی اتفاق کی صورت میں نظر آتی ہے۔

ایک دوسرے کے پیٹ چاک کرنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کی خواہش کا ببانگِ دہل اظہار کرنے سے لے کر عمران خان کے خلاف بغل گیر ہو جانا، ن لیگ کا زرداری صاحب کی صفائیاں دینا اور بلاول صاحب کا انکل نواز کے گن گانے کا سلسلہ یہی بتاتا ہے کہ ’دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔‘

اب آتے ہیں وزیر اعظم پاکستان، جناب عمران خان صاحب کی جانب، جن کے دوستوں کی فہرست طویل اور دشمنوں کی فہرست طویل تر۔ چاہنے والے بھی بےانتہا اور کچا چبا جانے کا جذبہ رکھنے والے بھی بہت۔

پچھلے 18 ماہ میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایسی ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ نہ تبدیلی کے حامیوں کو زیادہ دیر خوش ہونے کا موقع مل سکا، نہ ناقدین یہ طے کر سکے کہ اپنے قائدین کی گرفتاری پر کس حد تک احتجاج کیا جائے، مبادا احتجاج کے دوران ہی عبوری ضمانت سے ’فیض یابی‘ ہو جائے اور گرتی ہوئی دیوار کی جگہ ’احساس جگاؤ، نظام بچاؤ‘ کا نعرہ لگانا پڑ جائے۔ اس موقع پر پنجابی زبان کا ایک محاورہ بےساختہ یاد آ گیا: ’جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میڈیا، حکومت، اپوزیشن اور عوام - چاروں ہی اپنا اپنا رگ الاپتے دکھائی دیتے ہیں اور کوئی ایک دوسرے کی طرف نہ دیکھ رہا ہے، نہ بات سن رہا ہے۔ کام سے کام رکھنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ چاروں شکوہ کناں ہیں کہ ہمیں سنا نہیں جا رہا اور میرا چاروں کو مخلص مشورہ ہے کہ کوئی ضرورت بھی نہیں ایک دوسرے کی بات سننے کی۔ یہ نہ ہو کہ خدانخواستہ بات سمجھ ہی آ جائے اور امن ہو جائے۔

اس ساری صورت حال میں اگر کوئی سب سے زیادہ پِس رہا ہے تو وہ ہیں عوام جن کا بل اور اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں اور عمران خان، جنہوں نے اس 18 ماہ کے دورانیے میں پاکستان کو عالمی سطح پر دہائیوں بعد زندہ کر دیا ہے۔ معیشت پہلی بار مصنوعی بیساکھیوں کا سہارا لے کر عارضی طور پر خوش نما نہیں، بلکہ ٹھوس اقدامات کے نتیجے میں آہستہ آہستہ سنبھل رہی ہے۔ تجارتی خسارہ 20 ارب ڈالر سے کم ہو کر محض دو ارب ڈالر رہ گیا ہے۔ رواں سال ماہانہ ایک ارب، 90 کروڑ ڈالر کی ترسیلات موصول ہوئیں۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت نے اپنے اخراجات بڑھانے کی بجائے، 40 ارب روپے کم کیے۔ امریکہ اور یورپ میں پاکستان کو دہائیوں بعد سنجیدگی سے دیکھا جا رہا ہے۔ موڈیز میں پاکستان کی بہتر درجہ بندی ہو یا ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے بورڈ اور بلوم برگ جیسے مایہ ناز اداروں کی جانب سے پاکستانی معیشت کی سمت کی درستگی کی تائید ہو، پوری دنیا پاکستان کے مستقبل کے بارے میں پرامید نظر آ رہی ہے۔

مگر پھر پاکستان میں اتنی مایوسی کیوں؟ اتنی شاندار کارکردگی کے باوجود عمران خان عوام کو یہ سب کیوں نہیں سمجھا پا رہے، اس کی وجہ ان کے تین دشمن ہیں۔

1۔ وزیراعظم کی میڈیا ٹیم: جس کو 100 روپے کا کام 10 روپے کا بھی بتانا نہیں آتا، جبکہ ماضی میں عوام کو 10 روپے کا کام 100 روپے کا بتایا جاتا تھا۔ نادان دوست سے عقل مند دشمن بھلا۔

2۔ کابینہ کے چند شاطر ساتھی اور سرکاری ملازمین میں چھپے فصلی بٹیرے: ’جو جیتا وہی سکندر‘ کے مصداق، ہر آنے والے کو کرتے ہیں سلام اور جانے والے کو کہتے ہیں، ’ہوتا ہو گا آپ کا بھی کوئی نام۔‘ یہ نہ خود کوئی کام کرتے ہیں، نہ کسی کو کرنے دیتے ہیں اور ان کی کارکردگی کا سہرا بھی عمران خان صاحب کے سر۔

3۔ ناراض بیوی سے زیادہ خطرناک نالاں میڈیا: جن کو معاوضہ لے کر جائز، ناجائز تعریف کرنے کی ہو عادت، ان سے مفت میں حالاتِ حاضرہ کی منظرکشی کرنے کا کہنے پر آپ کے ساتھ وہی ہو گا جو نئی نویلی دلہن کے سامنے پرانی محبوبہ کے گن گانے والے نادان شوہر کا حال ہوتا ہے۔

عمران خان کے تین دوست ان کا اللہ‎ پر مضبوط ایمان، پاکستان کے لیے سچی نیت اور عوام کی ان سے اور ان کی عوام سے محبت ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ خدا ان کی مدد کرتا ہے، جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں، لہٰذا اپنے دشمنوں سے نبردآزما ہوں گے تو دوستوں کی مدد بھی حرکت میں آئے گی۔ اچھی نیت اور عوام سے محبت اپنی جگہ اور صحیح وقت پر، صحیح سمت میں کیے گئے صحیح فیصلے اور درست عہدے پر درست شخص کا انتخاب اپنی جگہ۔

جنگل میں ناچا مور آج میڈیا کے صحیح استعمال اور درست حکمتِ عملی اپنا کر نہ صرف دیکھا جا سکتا ہے، بلکہ اس سے حکومت اور عوام کے درمیان غلط فہمیوں کا پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہو سکتا ہے۔ اگر میڈیا اور عوام کو اعتماد میں لے کر باقاعدگی سے بتایا جائے کہ ہر شعبے کی کیا کارکردگی ہے اور آگے کی کیا منصوبہ بندی ہے تو یقیناً قوم کا حکومت پر اعتماد بڑھے گا اور اپوزیشن بھی زیادہ چوکس ہوگی کہ اب سے کارکردگی کی دوڑ ہو گی۔

اب نہیں تو کب؟ وقت ہے کم اور مقابلہ ہے سخت۔ پاکستان زندہ آباد۔


ملیحہ ہاشمی سیاسی تجزیہ نگار، لکھاری اور موٹیویشنل سپیکر ہیں اور بین الاقوامی میڈیا پر دفاعی معاملات، خطے کے سیاسی معاملات اور بالخصوص مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی نمائندگی کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں اقوامِ متحدہ کے ساتھ متعدد منصوبوں پر کام کرتی رہتی ہیں اور انگریزی اور اردو کی کالم نگار ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر