بچوں سے ریپ کے خلاف بھوک ہڑتال آج سے شروع

خیبرپختونخوا سمیت ملک بھر میں بچوں سے ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف پشاور میں آج سے سول سوسائٹی اور سماجی کارکنوں کی جانب سے بھوک ہڑتال شروع کر دی گئی ہے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں آٹھ سالہ بچی مدیحہ کے قتل میں ملوث ان کے چچا زاد بھائی الیاس کو گرفتار کر لیا گیا ہے، ایک طرف جہاں عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے، وہیں بچوں سے زیادتی کے ان واقعات کے خلاف پشاور میں بھوک ہڑتال بھی شروع کردی گئی ہے۔

پولیس کے مطابق مدیحہ گذشتہ ہفتے گھر سے اپنے لیے دکان سے کچھ چیزیں خریدنے گئی تھی، جس کے بعد بچی کا کچھ پتہ نہیں چلا تھا اور پھر صبح فجر کی نماز کے وقت گاؤں کے لوگوں کی نشاندہی پر مدیحہ کی لاش قریبی جھاڑیوں سے برآمد ہوئی۔

ہنگو کے ضلعی پولیس آفیسر شاہد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بچی کے قتل میں مبینہ طور پر ان کا چچا زاد بھائی ملوث ہے، جسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا: ’ملزم سے آلہ قتل بھی برآمد کر لیا گیا ہے جبکہ ملزم نے دوران تفتیش اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا ہے۔‘

اس حوالے سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کا کہنا تھا کہ واقعے میں ملوث شخص کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔

دوسری جانب بچوں سے ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف پشاور میں آج سے سول سوسائٹی اور سماجی کارکنوں کی جانب سے بھوک ہڑتال شروع کر دی گئی ہے۔

یہ ہڑتال پشاور میں صوبائی اسمبلی کے سامنے ہو رہی ہے، جس میں ریپ کی شکار بچیوں کے والدین بھی شرکت کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہڑتال میں شریک نوشہرہ میں قتل کی جانی والی آٹھ سالہ عوض نور کے والد اسجد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی بچی کو ابھی تک انصاف نہیں ملا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس کیس کا فیصلہ جلد از جلد سنایا جائے اور مجرمان کو سزا دی جائے۔

انہوں نے بتایا کہ والدین دن رات بچوں کی چوکیداری نہیں کرسکتے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے بچوں کو تحفظ فراہم کریں۔

اسجد نے بتایا: ’والدین تو باہر محنت مزدوری کرتے ہیں۔ سارا دن وہ بچوں کی چوکیداری نہیں کر سکتے، اس لیے حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ عوام میں آگاہی مہم شروع کریں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے تجویز پیش کی کہ ’سکولوں اور والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو سیکس ایجوکیشن دلائیں تاکہ انہیں یہ معلوم ہو کہ وہ کسی بھی شخص سے کھانے پینے کی کوئی چیز نہ لیں اور اگر وہ کوئی نامناسب حرکت کریں تو بچے کو آئیڈیا ہو کہ اس شخص نے یہ حرکت کس بنیاد پر کی ہے۔‘

ہڑتال کے ایک منتظم اور سماجی کارکن شہنام خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ گزشتہ کئی سالوں سے ان واقعات کی روک تھام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن اب چونکہ چند مہینوں میں اس قسم کے واقعات میں مزید اضافہ ہوا ہے تو انہوں نے بھوک ہڑتال شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ تب تک یہ ہڑتال جاری رکھیں گے جب تک یہ واقعات رک نہ جائیں۔ ’ہم مزید اپنے بچوں کو قتل ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ اسمبلی میں سرعام پھانسی کی قرارداد منظور ہوئی تو اپنے ہی لوگوں نے ان کے خلاف آواز اٹھانی شروع کردی۔‘

شہنام نے مزید بتایا کہ جس طرح پولیو ہمارے بچوں کو اپاہج بنا رہا ہے اور حکومت کی جانب سے پولیو مہمات ہوتی رہتی ہیں، اسی طرح بچوں کے ریپ کے خلاف بھی حکومت کو بھرپور آگاہی مہم شروع کرنی چاہیے تاکہ اس گھناؤنے فعل پر قابو پایا جاسکے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان