پیارے پاکستانیو تیار ہو جاؤ

پاکستان کا ایک حصہ وائرس سے بچنے کے لیے بند ہے۔ ایک حصے میں ایران سے لوگوں کے واپس آنے کی گنجائش باقی ہے اور تیسری طرف افغانستان کو جانے والے دروازے چوپٹ کھلے ہیں۔

پشاور میں ایک خاتون بازار میں فیس ماسک پہن کر گزر رہی ہیں (اے پی پی)

ایک ایسا نظام جو وطن سے محبت کے ترانے ہر وقت سناتا ہو اب ایک ایسی نہج پر پہنچ گیا ہے کہ پاکستانیوں کو اپنی سرزمین کی طرف لوٹنے پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔

حکومت کی طرف سے جاری کردہ ہدایات کے مطابق پاکستان میں آنے والے تمام مسافروں کو اڑان سے پہلے 24 گھنٹے میں کرونا سے عدم متاثر ہونے کا ایک سرٹیفکیٹ ایئر لائن کو مہیا کرنا ہے، جس کے بغیر وہ سفر نہیں کر سکتے۔ دنیا کو کرونا وائرس کی وجہ سے جو مصیبت پڑی ہوئی ہے اس کے پیش نظر اس قسم کے سرٹیفکیٹ کا حصول ناممکن ہے۔

نہ اٹلی، نہ برطانیہ اور نہ کوئی اور ملک ہماری حکومت کی ہدایت کے مطابق ہمارے شہریوں کو کاغذ کا یہ پرزہ دینے پر راضی ہو گا اور ویسے بھی کرونا وائرس کے ٹیسٹ ان لوگوں کے ہوں گے جو ممکنہ طور پر اس انفیکشن کا شکار ہیں اور پھر ٹیسٹ کرنے کے بعد 14 دن کی تنہائی کاٹنے کی شرط بھی بعض ممالک نے لاگو کر رکھی ہے۔

اب ہزاروں پاکستانی جو اپنے ملک واپس آنا چاہتے ہیں ایئر پورٹ پر دھکے کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اپنے موبائل سے ویڈیو بنا کر ادھر اُدھر بھِیج رہے ہیں۔ اللہ رسول کے واسطے دے رہے ہیں لیکن زمین کی مٹی سے پیوستہ رہنے کا لیکچر دینے والا یہ نظام ان کی کسمپرسی پر کان نہیں دھر رہا۔

اس احمقانہ پالیسی میں بذریعہ یو ٹرن تبدیلی جلد آ بھی گئی ہے لیکن جن پاکستانیوں کو بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر اپنی حکومت کی طرف سے بے یارو مددگار چھوڑنے کا جو تجربہ ہو چکا وہ ان کو ہمیشہ یاد رہے گا۔ اس حماقت کے پیچھے یہ سوچ کارفرما تھی کہ اب چونکہ مغرب سے کرونا وائرس کے کیسز ایشیائی ممالک کی نسبت کہیں زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں تو ہمیں ان خطوں سے آمد و رفت بند کرنی ہے۔

اس آمد و رفت کی بندش کو پاکستانی شہریوں کے خلاف بطور سزا لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ ملک میں واپس آنا پاکستانی شہریوں کا حق ہے۔ جن لوگوں کو وائرس کے انفیکشن کا خدشہ ہے ان کی باقاعدہ سکریننگ کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔

اگر یہ نہیں کرنا تو واضح انداز سے پیغام جاری کر دینا چاہیے تھا کہ پاکستان ہر قسم کی ہوائی آمد و رفت کے لیے فی الحال بند ہے تاکہ ہر کوئی سفر کرنے کی پلاننگ کو نئے حالات کے مطابق ڈھال سکے۔ مگر اس قسم کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت کو ہوائی سفر کے ساتھ جوڑ کر ایک درمیانی راستہ نکالنے کی ناکام کوشش بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے درد سر بن گئی۔

اس سے قبل چین میں موجود پاکستانی طلبہ و طالبات کو بھی اسی قسم کی صورت حال سے گزارا گیا۔ ان کے والدین کی دلخراش منتیں کام نہ آئیں اور ان بچوں کو ان کی مرضی کے خلاف چین میں محصور کر دیا اور یہ اس وقت کا قصہ ہے کہ جب کسی کو علم نہیں تھا کہ چین اس وبا سے کتنے موثر انداز سے نمٹ پائے گا۔

ہم نے ایک ایسے موقعے پر جب دوسرے ملک چین سے اپنے طلبہ و طالبات کو نکال رہے تھے، اپنے شہریوں کو غیریقینی حالات کے حوالے کر دیا اور اب ہم ایک دوسرے کو یہ بتا کر خوش ہوتے ہیں کہ چین اس قدم سے ہمارا کتنا احسان مند ہوا ہے۔ اپنے شہریوں کو بیچ منجھدار چھوڑ کر دوسروں کو احسان مند کرنے کی یہ پالیسی اخلاقی، انسانی اور سیاسی عنصر سے عاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے باوجود اپنے ملک کو کرونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے بند کرنے کی یہ بےرحم پالیسی قابل دفاع ہوتی اگر اس کا اطلاق اپنی سرحدوں کے ہر حصے پر کیا جاتا۔

جب پاکستانی طلبہ چین میں موجود تھے [اور ابھی بھی ہیں] تب پاکستان میں آنے جانے والے تمام راستے کھلے تھے۔ سرکاری دورے بھی ہو رہے تھے اور عام شہری ملک کے اندر باہر آسانی سے نقل و حرکت کر رہے تھے۔ کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ وائرس اگر چین میں محصور طلبہ و طالبات کے ذریعے پاکستان میں آ سکتا ہے تو جہازوں میں کون سا ایسا آلہ فٹ ہے کہ اس کے مسافر اس وبا کو پاکستان میں نہیں لائیں گے۔

پھر یہ ہوا کہ مغرب سے آنے والے مسافروں نے ایئر پورٹ سے بھاگ بھاگ کر اس وائرس کو ملک میں پھیلایا۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر صدر مملکت اور محترم وزرا چین جا کر طلبہ سے بذریعہ ویڈیو بات چیت کر کے کرونا وائرس کے ٹیسٹ کروا کر واپس اپنے پیاروں میں آ سکتے ہیں تو ان بچوں اور بچیوں کا کیا قصور تھا جن کو ان مشکل حالات میں یہ سہولت مہیا نہیں کی گئی؟

اور پھر اس سے بھی بڑا سکینڈل ایران سے زائرین کو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دینے کا ہے۔ چین میں طلبہ و طالبات دوسرے ملک اور نظام کے حوالے کر دیے گئے کیوں کہ وائرس پھیلنے کا خدشہ تھا اور ایران جو اس وقت تک چین کے بعد ایشیا میں کرونا کا بڑا مرکز بن چکا تھا وہاں سے زائرین کو کھلے عام واپس آنے دیا گیا۔

اور جب سینکڑوں زائرین پاکستان میں واپس آ کر پھیل گئے تو پھر خیال آیا کہ ہمیں باقی ماندہ لوگوں کو 14 دن کی تنہائی میں رکھنے اور وائرس کے ٹیسٹ کروانے کی ضرورت کو پورا کرنا ہے۔ اور پھر جو ہوا وہ آپ سب نے اس ویڈیو میں دیکھ لیا جو اس نام نہاد کوارنٹین سینٹر سے بنائی گئی۔ اب ایران سالوں سے موجود پاکستانی طلبہ کو واپس بھیجنے پر اصرار کر رہا ہے۔

جب یہ ہو گا تو کیا ان طلبہ پر چین میں پاکستانیوں والی پالیسی لاگو ہو گی یا بیرون ملک سے آنے والے شہریوں کے لیے 24گھنٹے پہلے وائرس فری ہونے کا سرٹیفکیٹ لازم قرار دیا جائے گا یا زائرین کی طرح چند ایک کو آنے دیا جائے گا؟ یا چند ایک کو کسی کیمپ میں رکھ کر وقت گزارا جائے گا؟

اگر ایران نے ان کو واپس دھکیل دیا تو وہ سرحد سے آئیں گے یا بذریعہ جہاز لائے جائیں گے؟ اپنے ملک کے شہریوں کو ابھی تک نظریہ حماقت کے تحت چار مختلف قسم کی پالیسیوں کے تابع کیا جا چکا ہے۔ بعض کے لیے پروازیں بند، بعض کے لیے پروازیں بذریعہ سرٹیفکیٹ، کچھ کے لیے خاموش بارڈر پر آمدو رفت، کچھ کے لیے آمد کے بعد کوارنٹین اور اب پی آئی اے کی تمام فلائیٹیں بند۔ یعنیٰ پاکستان اب پاکستانیوں کے لیے لاک ڈاؤن ہے۔

مگر افغانستان کے لیے ہماری سرحدیں کھلی ہیں۔ ہمیں افغانستان کے ساتھ رابطہ رکھنے کی مجبوریاں بتا کر اس عجیب و غریب اور عقل سے بالا پالیسی کا دفاع کیا جا رہا ہے جس کے ذریعے کرونا وائرس کے خلاف بند سرحدوں کو افغانستان کی سہولت کے لیے کھلا رکھا گیا ہے۔ اگر ہزاروں کی تعداد میں ٹرک، رائیور اور مسافر، کاروباری ایشیا بارڈر کے پار جا سکتی ہیں تو اس وائرس کو کیسے روکا جائے گا؟

پاکستان کا ایک حصہ وائرس سے بچنے کے لیے بند ہے۔ ایک حصے میں ایران سے لوگوں کے واپس آنے کی گنجائش باقی ہے اور تیسری طرف افغانستان کو جانے والے دروازے چوپٹ کھلے ہیں۔

ہمیں تضادات سے بھری ہوئی اس پالیسی پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔ ہم نے کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے اندرون خانہ بھی ایسی ہی حرکات کی ہیں۔ گورنر پنجاب لوگوں کے جھرمٹ میں کھڑے ہو کر فاصلہ برقرار رکھنے کے فضائل پر لیکچر دیتے ہیں۔ عوام کو محفوظ رہنے اور جان بچانے کی ترغیب دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران پنجاب، اسلام آباد اور کے پی کو لاک ڈاؤن اس وجہ سے نہیں کرنا چاہتے کہ چھابڑی والوں کی نوکریاں متاثر ہوں گی یعنیٰ رزق بچ جائے، جان کی خیر ہے۔

وہ ایک طرف عوام کو نہ گھبرانے کی تلقین کرتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی بتاتے ہیں کہ امریکہ میں لوگوں کا گھروں میں اسلحہ اکٹھا کرنا شاید حالات کے پیش نظر بےجا نہیں ہے۔ کیوں کہ 'ایسا ہو سکتا ہے' ہم نے کرونا وائرس سے متعلق پالیسی کو ہفتوں میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے دیکھا ہے۔

چین، ایران اور اٹلی میں بگڑتے ہوئے حالات کے باوجود ہم کہہ رہے تھے تسلی رکھیں کچھ نہیں ہو گا۔ پھر کہا گھبرانا نہیں ہے اتنا برا نہیں ہو گا۔ پھر کہا دہشت زدہ نہ ہوں لیکن یہ وائرس پھیل سکتا ہے۔ پھر فرمایا گھبرائے بغیر اپنا بندوبست کر لیں کیوں کہ اگر یہ پھیلا تو ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں۔ اب کہہ رہے ہیں یہ جنگ ہے اور جہاد کے لیے تیار رہیں۔

اللہ کرے یہ جنگ ان جنگوں سے مختلف ہو جن سے متعلق ہم 18 ماہ میں بہت کچھ سن چکے ہیں۔ غربت کے خلاف جنگ، مافیا کے خلاف جنگ، ڈیم کے لیے جنگ، معیشت کے لیے جنگ، نوکریوں کے لیے جنگ، مکانوں کے لیے جنگ، کرپشن کے خلاف جنگ اور ایسے درجنوں دوسرے معرکے جن کی داستانیں تو خوب پھیلیں مگر وہ کبھی وقوع پذیر نہیں ہوئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ