کرونا وائرس: پاکستان امریکہ سے کیا سیکھ سکتا ہے؟

مشکل کی اس گھڑی میں یہاں سیاست، مذہب اور سائنس ایک ہی صفحہ پر ہیں کہ وہ کس طرح اس مشترکہ دشمن (کرونا وائرس) کو شکست دیں۔ 

لاس اینجلس میں ایک خاتون بند سینیما کے باہر  ماسک پہن کر گزر رہی ہیں۔ امریکہ میں سینیما اپریل تک بند ہیں (اے ایف پی)

دنیا کے بہترین ہسپتال (دا مایو کلینک، کلیولینڈ کلینک، جانز ہاپکنز) اور عالمی سطح پر دس بہترین میڈیکل کالجز میں سے چھ (ہارورڈ، سٹین فورڈ، جان ہاپکنز، یو سی ایل اے، یئل اور ایم آئی ٹی) امریکہ میں ہیں لیکن کرونا وائرس نےآج کل اس ملک کو بھی اپنی گرفت میں لے کر اسے ایک بدترین معاشی بحران کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔

تادم تحریر یہاں 13 ہزار سے زائد کرونا وائرس کے کیسز سامنے آئے ہیں جس کے نتیجے میں تین سو کے لگ بھگ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ تاہم اس وقت بھی پوری دنیا کی نظریں امریکہ ہی پر لگی ہوئی ہیں کہ جس ملک نے نصف صدی سے زائد عرصے تک سائنس، ٹیکنالوجی، معاشی اور دفاعی شعبہ جات میں حکمرانی کی ہے اور جس نے دنیا کو بجلی، جہاز، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ جیسی حیرت انگیز ایجادات دیں کیا وہ بالآخر کرونا وائرس کا علاج ڈھونڈ سکے گا یا خود اس کی زد میں آکر معاشی طور پر دیوالیہ ہوگا؟

امریکہ دنیا کی مضبوط ترین معاشی قوت ہونے کی وجہ سے اس بحران سے کس طرح نمٹتا ہے باقی دنیا کے لیے قابل دید ہے۔ پاکستان جیسے ممالک جن کے پاس امریکہ جیسی بڑی معیشت نہیں ہے ان کے لیے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کرونا وائرس کیسی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ لہذا کرونا سے متعلق امریکہ کی حکمت عملی پاکستانی عوام اور حکمرانوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہونا چاہیے۔ ہم امریکی تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور ہمیں پتہ چل سکتا ہے کہ وہ کون سی غلطیاں ہیں جن کا معاشی و ٹیکنالوجی کے اعتبار سے کمزور اور پسماندہ پاکستان جیسے ممالک متحمل نہیں ہوسکتے۔

سننسان واشنگٹن

یہاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ہفتے پہلے پورے ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کیا جس کے ساتھ ہی کروڑوں لوگوں کو گھر سے کام کرنے کی تلقین کی گئی۔ واشنگٹن ڈی سی جہاں لاکھوں لوگ کام کرتے ہیں اب بالکل ویران لگنے لگا ہے۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے۔ سڑکیں سننان اور میٹرو (ٹرین) سٹیشن جہاں کچھ دن پہلے تک لاکھوں لوگ واشنگٹن اور اس کے مضافات سے سفر کر کے دفتر آتے تھے اب خالی ہوگئی ہیں۔ ریسٹورانٹ، بار، کلب، سٹیڈیم، شاپنگ مال، سکول، کالجز اور جامعات کی چہل پہل ماند پڑگئی ہے۔

اس غیرمتوقع صورت حال کا ایک مثبت رخ یہ ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں لوگوں کو بےانتہا سماجی و معاشی آزادی حاصل ہے، وہاں لوگوں نے سیاسی و شخصی اختلافات کے باوجود حکومت اور ماہرین کے مشوروں کو سنجیدگی سے لینا شروع کیا ہے۔ اگرچہ چند علاقوں میں نوجوانوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور کرنا مشکل تھا کیونکہ وہ اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ اس وائرس کا نوجوانوں کی بجائے بزرگوں پر زیادہ اثر ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر میں یہ دیکھ کر متاثر ہوا ہوں کہ لوگ ٹرمپ اور اس کی حکومت سے لاکھ اختلافات کے باجود اس مسئلے کو صرف حکومت کا مسئلہ نہیں سمجھ رہے ہیں بلکہ اسے ایک قومی بحران سمجھ رہے ہیں۔ حکومت، حزب اختلاف اور نجی سیکٹر سب ’ون امریکہ‘  کے بینر تلے اکھٹا ہو رہے ہیں۔

سیاست، مذہب اور سائنس کا اتحاد

پاکستان کے برعکس جہاں حکومتی اپیل کے باوجود کئی علاقوں میں جمعہ کی باجماعت نمازیں پڑھائی گئیں، واشنگٹن ڈی سی کے اسلامک سینٹر نے اپنی ویب سائٹ پر عوام سے اپیل کی کہ وہ نماز جمعہ کے لیے مسجد آنے کی بجائے اپنے گھروں میں نماز پڑھیں۔ یہاں تمام مذہبی رہنماؤں نے حکومت کی اپیل پر لبیک کہا اور اپنے مذہبی اجتماعات آن لائن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کسی نے حکومت پر یہ الزام نہیں لگایا کہ اس فیصلے سے حکومت ان کے مذہبی عقیدے کو کمزور کر رہی ہے اور نہ ہی کسی نے مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے کیا۔

مشکل کی اس گھڑی میں یہاں سیاست، مذہب اور سائنس ایک ہی صفحے پر ہیں کہ وہ کس طرح اس مشترکہ دشمن (کرونا وائرس) کو شکست دیں۔ 

حکومت کا کہنا ہے کہ امریکہ کو ایک بڑے انسانی بحران سے بچانے کے لیے لازمی ہے کہ لوگ ان کے ساتھ تعاون کریں۔ سماجی دوری یا social distancing  کا مقصد یہ ہے کہ لوگ کم از کم دو ہفتوں تک اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں تاکہ وہ اس وائرس کی زد میں نہ آئیں۔ اگرچہ صحافیوں کا کام ایسا ہے کہ انہیں گھر سے باہر جانا پڑتا  ہے، ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے اپنے تمام صحافیوں کو گھر سے کام کرنے کی اجازت دی ہے۔

 کرونا وائرس نے آتے ہی امریکی عوام کو محض اپنی تباہ کاریوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے بھی حیران و پریشان کر دیا ہے کہ ان کا ملک اس بحران سے نمٹنے کے لیے کس قدر تیار نہیں تھا۔ اس وقت واشنگٹن ڈی سی سمیت امریکہ کی تمام 50 ریاستوں میں کرونا وائرس کے کیسز سامنے آئے ہیں اور دنیا کے اس امیر ترین ملک میں بھی ہسپتالوں سے یہ شکایت موصول ہو رہی ہے کہ وہاں اس بحران سے نمٹنے کے لیے بنیادی ضروریات کی کمی ہے۔

کہیں ڈاکٹرز کے لیے گاؤن نہیں ہیں تو کہیں کرونا وائرس کا ٹیسٹ تاحال دستیاب نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ میں بھی ماہرین کے وہم و گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ یہ بحران اتنا سنگین ہو سکتا ہے۔

صدارتی اننخابات پر اثر

ٹرمپ نہ صرف اپنی صدارت کے سب سے بڑے امتحان سے نبرد آزما ہیں بلکہ انہیں اس بحران کا ایک ایسے وقت میں سامنا ہے جب وہ آٹھ ماہ بعد اپنے عہدے پر دوبارہ منتخب ہونے کے لیے انتخابات میں غالباً اوبامہ کے نائب صدر جوزف بائیڈن کا مقابلہ کریں گے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 اگر وہ امریکہ کو نومبر سے پہلے اس ’پراسرار دشمن‘ کے مقابلے میں فتح سے ہمکنار کرتے ہیں تو ان کی صدارتی انتخابات میں فتح یقینی ہوگی اور ان کا شمار ابراہام لنکن اور فرینکلن روزویلٹ جیسے اہم ترین صدور میں ہوگا جنہوں نے امریکہ کو سول وار اور گریٹ ڈپریشن جیسے سنگین بحرانوں سے نکالا۔ دوسری طرف اگر وہ اس بحران سے موثر انداز میں نہیں نمٹتے تو کرونا وائرس ان کے اور وائٹ ہاؤس کے درمیان دوسرے ٹرم کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہوگا کیونکہ امریکی عوام ایک ایسے نئے قائد کی طرف دیکھیں گے جو انہیں نہ صرف اس وبا سے خلاصی دلائے بلکہ اس کے نتیجے میں جو بدترین معاشی حالات ابھی سے شروع ہوگئے ہیں ان سے بھی مقابلہ کرنے میں ان کی رہنمائی و قیادت کرے۔

اس وقت جب امریکہ کرونا وائرس سے نبرد آزما ہے، لاکھوں افراد اپنی نوکریاں گنوا بیٹھے ہیں اور ملک ایک شدید معاشی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ البتہ خوش آئند بات یہ ہے کہ حکمران جماعت ری پبلکن اورحزب اختلاف ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنے سیاسی اختلافات کو وقتی طور پر بالائے طاق رکھ کر امریکی عوام کو اس مشکل وقت میں اس بحران سے نمٹنے کے لیے دو کھرب ڈالرز کے معاشی پیکج پر مشترکہ طور پر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو اگلے ہفتے منظور ہوگا۔

اس پیکج کے تحت حکومت کروڑوں شہریوں کو ایک ہزار ڈالر یا زائد کے چیک بھیجے گی تاکہ مشکل کی اس گھڑی میں وہ اپنے گھر کا کرایہ ادا کریں اور راشن خریدیں۔ 

امریکہ کے پاس تو اس بحران سے نمٹنے کے لیے دو کھرب ڈالرز کا پیکج منظور کرنے کی سکت ہے اور وہ اپنی ساڑھے تین سو ملین پر مشتمل آبادی میں ہر شہری کو ایک ہزار ڈالرز دینے کی استطاعت رکھتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان جیسا ترقی پزیر ملک اس وبا، اس کے معاشی اثرات اور اس کے بعد کی تعمیر نو کے لیے تیار ہے؟ بقول پروین شاکر:

وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا

 مسئلہ پھول کا ہے، پھول کدھر جائے گا

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ