برہان وانی کے پوسٹر کی تصویر لینا کشمیری فوٹو جرنلسٹ کو مہنگا پڑ گیا

دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے کے الزام میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مقدمے کا سامنے کرنے والی کشمیری فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کا کہنا ہے کہ کشمیر میں صحافیوں کی آواز کو دبایا جارہا ہے۔

کشمیری فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا، جن کے خلاف حال ہی میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس نے دہشت گردی کے قانون کے تحت ایک مقدمہ درج کیا تھا، کا کہنا ہے کہ ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں اور وہ محض زمینی حقائق عوام تک پہنچاتی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں مسرت زہرا نے بتایا کہ اپنے کام کے دوران انہوں نے ایک تصویر لی تھی جس میں فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والے چند افراد ایک جلوس کے دوران حزب المجاہدین کے سابق کمانڈر برہان وانی کی تصویر لیے کھڑے تھے۔انہوں نے بتایا کہ پولیس نے تحقیقات میں ان پر الزام لگایا کہ وہ دہشت گردوں کی سپورٹ کرتی ہیں اور سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز تصاویر شئیر کرتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مسرت زہرا کا کہنا تھا:’جموں و کشمیر میں صحافیوں کی آواز کو دبایا جارہا ہے۔ یہاں کے اداروں نے میری اصل شناخت کو چھپا کر میرے خلاف مقدمہ درج کیا۔ پریس رلیز میں بھی مجھے صحافی کے بجائے صرف ایک فیس بک یوزر کہہ کر مخاطب کیا گیا۔ میں چار سال سے اس شعبے سے وابستہ ہوں اور میں جو بھی کرتی ہوں وہ میرا کام ہے۔‘

جموں کشمیر پولیس کی جانب سے مسرت پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ مبینہ طور پر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے اشتعال انگیز پوسٹ اور دہشت گردوں کی سپورٹ میں تصاویر شئیر کر رہی ہیں اس لیے ان کے خلاف یو اے پی کی دفعہ 13 اور تعزیرات ہند کی دفعہ 505 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

مسرت زہرا ایک آزاد فوٹو جرنلسٹ ہیں جن کی لی گئی تصاویر ماضی میں مختلف بین الاقوامی اداروں میں شائع ہوتی رہی ہیں جن میں واشنگٹن پوسٹ، گیٹی امیجز، الجزیرہ اور دیگر بڑے ادارے شامل ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا