کشمیر: سچ بولنے پر پابندی

کشمیر اصل میں بارود کا ایک ایسا ڈھیر بن گیا ہے کہ محض ایک چنگاری سے ہولناک آگ بھڑکے گی۔ جب کشمیر میں خاموشی ہوتی ہے تو سمجھ لیں ایک بڑا طوفان شروع ہونے والا ہے۔

بھارت کے زیر اتنظام کشمیر کے سری نگر شہر میں بچے گھر میں بنائے گئے ماسک پہن کر کرکٹ کھیل رہے ہیں (اے ایف پی)

چند برس پہلے کی بات ہے جب پانچ یا چھ پڑھے لکھے نوجوان میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو پرامن طریقے سے حل کرنے پر زور دیتی رہی ہیں لیکن کیا ایسا کشمیر میں ممکن ہے؟

ان کا استفسار تھا کہ سن سینتالیس سے لے کر نوے کی دہائی تک کشمیر مسئلے کے حل کے لیے ایک پرامن تحریک چلائی گئی اور تحریک چلانے والوں کے ہزاروں خاندانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ بھارت نے ہماری تحریک کو کچلنے میں کتنے حربے آزمائے۔ ان حالات میں کیا بندوق اٹھانا جائز نہیں ہے؟

میں نے ان کو اپنی بات پر قائل کرنے کی درجنوں مثالیں دیں۔ گاندھی کی عدم تشدد کی تحریک سے لے کر نیلسن مینڈلا کی 27 برس کی اسیری کی داستانیں سنائیں، جناح کی بردباری کا حوالہ دیا اور ہزاروں پڑھے لکھے کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت سے ہونے والے نقصانات کے دوررس نتائج کی نشاندہی کی لیکن وہ میری بات سے متفق نہیں ہوئے۔ اور نہ اس وقت تک ہوں گے جب تک بھارت مسئلہ کشمیر کو پرامن طریقے سےحل کرنے پر توجہ نہیں دیتا۔ اس پر بھارت کے  بیشتر اندرونی سیاسی اور سماجی حلقے ہمیشہ زور دیتے آئے ہیں۔

ان میں سے ایک نوجوان جو جغرافیہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رہا تھا بولے، ’ہمارے پڑھے لکھے نوجوان بھارتی انتخابات کا حصہ بھی بنے۔ ان کا کیا حشر ہوا؟ ایک رہنما سزائے موت کا انتظار کر رہا ہے۔ دوسرا نیلسن مینڈیلا کی طرح جیل کا باسی بن چکا ہے۔ بھارت انگریز حکومت نہیں ہے اور نہ عدم تشدد کی زبان سےواقف ہے۔ ہماری قوم کو اس کا بھر پور مشاہدہ ہے۔ موت اٹل ہے اپنے وطن کی آزادی کے لیے جان نثار کرنا اس بربریت سے بہتر ہے جس نے ہماری چار نسلوں کو قبرستان میں دفن کر دیا ہے۔‘

میں ان نوجوان کو دیکھتی رہ گئی۔ خود کو صحیح ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرنے کے باوجود ان کو اپنی بات منوانے پر شاید راضی نہیں کرسکی۔
مجھے نہیں معلوم ان میں سے بعد میں کتنے نوجوانوں نے بندوق اٹھائی اور کتنے میری بات کو مانتے ہوئے قلم اٹھانے پر راضی ہوگئے لیکن ان کی آنکھیں مجھے ہر وقت گھورتی دکھائی دیتی ہیں، جب دہشت گردی کےنام پر نوجوانوں کو ہلاک کیا جاتا ہے یا پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے ایسے حالات پیدا کئے جاتے ہیں کہ انہیں بندوق اٹھانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ڈاکٹر منان وانی، محمد رفیع یا عیسی فاضلی کی مثالیں سامنے ہیں۔
بھارتی حکومت نے  کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لیے زور زبردستی کا ہر حربے آزمایا اور اب صحافیوں پر اس کا وار شروع ہوگیا ہے۔
مسرت زہرا نے بندوق کی بجائے کیمرہ اٹھایا۔ تو حکومت نے اس کا کمیرہ ہی چھین لیا۔ پیرزادہ عاشق نے اخبار میں حکومت کی پالیسی کو بےنقاب کیا تو خبر کو ’فیک‘ قرار دے کر عاشق پر ایف آئی آر درج کی گئی، گوہر جیلانی کو سچ بولنے کی سزا دی جا رہی ہے۔

ان لوگوں نے غیرجانبدار صحافیوں کی طرح اپنے لوگوں کے حالات اور جذبات کی عکاسی کی اور جن پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شاید حکومت نہیں جانتی کہ یہ صحافی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جس کو آپ نے ایک بڑی جیل میں تبدیل کیا ہے جہاں روز دسیوں نوجوانوں کو ہلاک کر کے ان کی لاشوں کو زندہ جلایا جاتا ہے، جہاں سیاسی رہنماؤں سے تحریر لی جاتی ہے کہ وہ حکومت کے فیصلوں پر بات نہ کرنے کے سودے کے بدلے رہائی حاصل کرسکتے ہیں۔ جہاں بستیوں کو خاکستر کیا جاتا ہے اور جہاں تجارت کو ختم کر کے کشمیریوں کو زیر کرنے کی منظم پالیسی پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔

اب یہ ایک اور حربہ یہ ہے کہ صحافیوں کو تفتیشی مراکز میں طلب کیا جاتا ہے اور سچ لکھنے پر ان پر جھوٹے مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔ پہلے تو کہا جاتا تھا کہ کشمیری نوجوانوں نے ’کسی‘ کے کہنے پر گمراہی کے عالم میں بندوق اٹھائی۔ کیا اب ان نوجوانوں نے کسی کے کہنے پر قلم اٹھائی ہے؟ 

حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو کشمیریوں کی کوئی ادا پسند ہی نہیں آتی۔ نہ ان کا زندہ رہنا راس آ رہا ہے۔ اسی لیے ان کو ذہنی اور جسمانی اذیتوں سے اتنا گھائل کرنے کی کوشش کی  جا رہی ہے کہ یہ قوم خود بخود مجبور ہو کر اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے سے دست بردار ہو جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول ایک مینسٹریم سیاستدان جو گذشتہ برس پانچ اگست سے پانچ ماہ تک اسیری میں تھے ’انفارمیشن ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں بھارت ایک کروڑ آبادی کو دنیا سے الگ تھلگ کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ زور زبردستی سے کشمیر کی ہیت کو تبدیل کر سکے۔ بھارت نے اپنی پالیسی سے سید علی شاہ گیلانی کے خدشات کی تصدیق کی اور مرکزی دھارے کو نہ صرف غلط قرار دیا بلکہ کشمیر کی سیاست میں مرکزی دھارے کو ہمیشہ کے لیے داغ دار بنا دیا۔

اب اگر چند صحافی اس پر پردہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ان پر مقدمہ درج کر کے انہیں بھی خاموش کرنے کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ جن کشمیریوں نے اپنے حقوق کی خاطر بندوق اٹھائی ان کو آپ نے دہشت گرد قرار دیا، ان کو زندہ جلا دیا اور اب جو قلم اٹھاتے ہیں ان کو مقدموں میں پھنسا رہے ہو۔

کشمیر اصل میں بارود کا ایک ایسا ڈھیر بن گیا ہے کہ محض ایک چنگاری سے ہولناک آگ بھڑکے گی۔ جب کشمیر میں خاموشی ہوتی ہے تو سمجھ لیں ایک بڑا طوفان شروع ہونے والا ہے۔
کیا عالمی برادری اس طوفان کو روکنے میں کوئی کردار ادا کرے گی؟  بھارت پر مسئلہ کشمیر کو پرامن طور پر حل کرنے پر زور ڈالے گی اور صحافیوں پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی سے اجتناب کرنے کی ضمانت لے گی؟ خدارا ان اداروں سے پھر پوچھ لیجیے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر