پاکستان میں کرونا (کورونا) وائرس سے ویسے تو ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد متاثر ہورہے ہیں لیکن عام شہریوں کے علاوہ جن شعبوں کے افراد سب سے زیادہ مثاثر ہوئے ان میں ڈاکٹر، نرسیں، پیرامیڈیکل سٹاف اور میڈیا کے افراد شامل ہیں۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے مطابق اب تک ملک بھر میں 312 صحافتی کارکن کرونا وائرس کی تشخیص پر قرنطینہ مراکز یا ہسپتالوں میں ہیں۔
ان میں میڈیا گروپ 'سٹی 42' کے سینیئر رپورٹر عمران یونس بھی شامل ہیں، جن کا کرونا ٹیسٹ دو مرتبہ مثبت آیا ہے اور وہ ہسپتال کے آئیسولیشن وارڈ میں موجود ہیں۔
عمران یونس نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنےویڈیو پیغام کے ذریعے بتایا کہ وہ ڈیوٹی پر تھے جب انہوں نے اپنے دفتر کے کچھ ساتھیوں میں کرونا کی تشخیص پر اپنا بھی ٹیسٹ کروایا۔
انہوں نے بتایا کہ جب ان کا ٹیسٹ مثبت آیا تو انہیں کافی پریشانی ہوئی اور محکمہ صحت سے رجوع کرکے وہ ہسپتال کے آئیسولیشن وارڈ منتقل ہو گئے تاکہ انہیں طبی امداد حاصل ہوسکے۔
عمران یونس کے مطابق جب وہ آئیسولیشن وارڈ میں آئے توعام تاثر کے مطابق علاج کی بجائے انہیں بالکل مختلف محسوس ہوا کیونکہ انہیں نہ کوئی انجکشن لگا اور نہ ہی نبض وغیرہ چیک ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ تقریباً آٹھ دن سے یہاں قرنطینہ ہیں اور انہیں صرف پیراسیٹامول کی گولی دی جاتی ہے۔ وہ نیم گرم پانی پیتے ہیں اور بھاپ لیتے ہیں۔ بقول عمران: 'یہ کوئی علاج نہیں صرف احتیاط ہے، جو گھروں میں رہ کر بھی ہوسکتی ہے لیکن سماجی دوری کا اصول ضروراپنایا جانا چاہیے۔'
عمران کہتے ہیں کہ ان کے دو ٹیسٹ ہوئے جو مثبت آئے ہیں اور انہیں امید ہے کہ تیسرا ٹیسٹ منفی آئے گا جبکہ ان کی پوری فیملی کے ٹیسٹ منفی آئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علامات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اس دوران انہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف ہوئی اور نہ ہی طبیعت میں کوئی تبدیلی محسوس کی۔ بخار یا نزلہ بھی نہیں ہوا، وہ معمول کے مطابق چل پھر سکتے ہیں، جسمانی ورزش بھی کر رہے ہیں اور کھانا پینا بھی بالکل معمول کے مطابق ہے۔
انہوں نے درخواست کی کہ سب کو اپنا ٹیسٹ کروانا چاہیے تاکہ یہ وائرس دوسروں میں نہ پھیلے۔
عمران کے خیال میں چالیس سال کی عمر تک کے لوگوں میں تو آثار ہی نمودار نہیں ہوتے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ان کے مشاہدے اور تجربے سے یہ محسوس ہوا ہے کہ جن افراد میں قوت مدافعت کم ہے انہیں لازمی ٹیسٹ کرانا چاہیے کیونکہ ان کے لیے وقت گزرنے کے ساتھ یہ نقصان میں بدل سکتا ہے۔
ملک بھر میں کرونا سے متاثرہ صحافیوں کی بات کی جائے تو جنرل سیکرٹری پی ایف یو جے راناعظیم کے مطابق اب تک 312 سے زائد صحافتی کارکنوں میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوچکی ہے جبکہ سکھر کے ایک صحافی کی موت بھی واقع ہوچکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صرف لاہور میں سٹی 42 میڈیا گروپ کے 13، دنی انیوز کے17، 92 نیوز کے 5 اور سما ٹی وی کے 3 کارکنوں سمیت شہر میں کام کرنے والے دیگر میڈیا گروپوں کے کارکنوں کی کل تعداد52 تک پہنچ چکی ہے، جن کو کرونا ٹیسٹ مثبت آنے پر قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔
رانا عظیم کے خیال میں اگر ابتدا سے ہی میڈیا اداروں کی انتظامیہ صحافتی کارکنوں کو حفاظتی کٹس فراہم کر دیتی اور فیلڈ یا دفاتر میں ڈیوٹیاں کم کر دیتی تو حالات ایسے نہ ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو اس صورت حال میں اب وقفے وقفے سے ڈیوٹیوں کا پابند بنایا گیا ہے، لیکن ان حالات میں کئی ادارے صحافیوں کو گھر بٹھا کر کام لینے کی بجائے بعض کو نوکریوں سے فارغ کر رہے ہیں جس سے ان کے سروں پر کرونا اور نوکری چھننے کے خوف کی تلواریں لٹکتی دکھائی دے رہیں۔
رانا عظیم کے مطابق: 'کرونا سے بچانے کے ساتھ ساتھ صحافیوں کا روزگار چھننے کا ڈر بھی ختم ہونا ضروری ہے۔'