'آپ میرے باپ کو اغوا کر سکتے ہیں، ان کی بہادری کو نہیں!'

میرے والد ادریس خٹک نے زندگی انسانی حقوق کے دفاع کے لیے وقف کر رکھی ہے اور وہ اس معاملے میں بہت مخلص شخص ہیں۔ انہیں 13 نومبر 2019 کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔

(ٹوئٹر)

'میرے والد نے لاپتہ ہونے سے ایک دن پہلے مجھے بتایا تھا کہ وہ پریشان ہیں۔

وہ مجھے ٹرین کے ذریعے کراچی جانے کی اجازت دینے سے ہچکچا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ریل گاڑیاں محفوظ نہیں ہیں اور یہ کہ اس معاملے میں کوئی چیز ایسی ہے جو ٹھیک نہیں لگ رہی۔ ہمارے درمیان سمجھوتہ ہو گیا کہ وہ میری خبرگیری کے لیے ہر گھنٹے بعد مجھے فون کریں گے۔

مجھے یاد ہے مجھے حیرت تھی کہ اُن کے خیال میں اگر ٹرین حادثے کا شکار ہو گئی یا جل گئی تو ایک فون کال مجھے بچا پائے گی۔

اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ اُن چھوٹے چھوٹے کاموں میں سے ایک ہیں جو والدین اُس وقت کرتے ہیں جب انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اور کیا کریں۔ اب مجھے اس کا احساس ہے کیونکہ جو سب میں چاہتی ہوں وہ یہی ہے کہ میں بھی انہیں فون کال کروں۔ ہر گھنٹے بعد انہیں فون کر کے تسلی کروں کہ میں خیریت سے ہوں۔

میرے والد ادریس خٹک نے زندگی انسانی حقوق کے دفاع کے لیے وقف کر رکھی ہے اور وہ اس معاملے میں بہت مخلص شخص ہیں۔ انہیں 13 نومبر 2019 کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔ مجھے ان کی طرف سے کچھ پتہ نہیں چلا۔ کسی کو اندازہ نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں۔ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ انہیں کون لے گیا۔

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کو ریاست سے اختلاف اور اس پر تنقید کو خاموش کروانے کے لیے آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو وہی ادارے اغوا کرتے ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ انہیں تحفظ فراہم کریں گے۔ ان اداروں کو قانون کی عمل داری سے ماورا تصور کیا جاتا ہے۔ کوئی وارنٹ گرفتاری جاری نہیں ہوتا۔ کوئی ریکارڈ ہوتا ہے نہ تحقیقات۔ گویا جیسے لاپتہ ہونے والے کبھی وجود ہی نہ رہا ہو۔

میرے والد ایمنسٹی انٹرنیشنل اورہیومن رائیٹس واچ جیسے انسانی حقوق کے اداروں کے لیے انہی جبری گمشدگیوں کے بارے میں تازہ معلومات اکٹھی کرتے تھے۔ اس حقیقت کا علم سب کو ہے۔

میں ٹرین میں سوار ہوئی اور اپنے والد کے مجھے فون کرتے رہنے کے وعدے کے بارے میں تقریباً بھول گئی۔ تقریباً پانچ گھنٹے بعد جب میں لاہور پہنچی تو میں نے اپنا موبائل دیکھا جس پر والد کی طرف سے کوئی مس کال نہیں تھی۔ پریشان ہو کر میں نے انہیں فون کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ بہت مصروف ہیں اوریہ کہ وہ کچھ دن اپنے دوستوں کے ساتھ ٹھہریں گے۔ انہوں نے عجیب انداز میں مزید کہا کہ ان کے فون کی بیٹری ختم ہونے والی ہے اور وہ اپنا چارجر گھر چھوڑ آئے ہیں۔ میں نے اس جانب زیادہ توجہ نہ دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب مجھے اگلے چند دن تک اُن کی طرف سے کوئی اطلاع موصول نہ ہوئی تو مجھے گھبراہٹ ہونا شروع ہو گئی۔ میں ان کے فون پر مسلسل کال کر رہتی جو بند ملتا تھا۔ میں نے اپنی خالہ سے بات کی جنہوں نے مجھے یقین دلایا کہ میرے والد خیریت سے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اُن کی میرے والد سے تھوڑی دیر پہلے ہی بات ہوئی ہے۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا لیکن میں نے اُن کی بات پر یقین کر لیا۔ میرے چچا نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں کچھ عرصہ کراچی میں رک سکتی ہوں۔ میں نے ان کے لہجے میں چھپا صورت حال کا غیرمعمولی پن محسوس کر لیا۔ میں ہنسی اور ان سے پوچھا کہ میں یہی رکی رہی تو میری جگہ امتحان کون دے گا؟

جب ٹرین کےذریعے میں اسلام آباد واپس جا رہی تھی تو صرف تب مجھے ایک دوست کا ٹیکسٹ پیغام ملا کہ میرے والد کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ میں فون کو غور سے دیکھا۔ کوئی اس طرح کا مذاق کیسے کر سکتا تھا؟

میرا خیال ہے کہ آپ اس وقت کہ جب آپ کا بدترین ڈر درست ثابت ہو رہا ہوں اپنے مایوسی کے جذبات پر غصے کو غالب آنے دیتے ہیں تا کہ حالات کا مقابلہ کر سکیں۔

میں ٹرین کے ڈبے پر کھلے دروازے کی طرف بڑھی۔ میرے ہاتھ کانپ رہے تھے اور دل دھک دھک کر رہا تھا۔ میں اگلے سٹیشن تک تمام راستے روتی رہی۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ کسے کال کروں یا میں خبر کی تصدیق بھی کرنا چاہتی تھی یا نہیں۔ آخر کار میں نے خود کو سنبھالا اور اس دوست سے پوچھا کہ اسے کس طرح پتہ چلا کہ میرے پاپا کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا ہے۔ انہوں نے مجھے ایک خبر کا سکرین شاٹ بھیج دیا۔

میرا خاندان مجھے تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پاپا کو گم ہوئے پہلے ہی پانچ روز گزر چکے تھے جس کے بعد مجھے اس خوفناک سچ کا پتہ چلا کہ کئی برس تک جبری گمشدگیوں کے بارے میں رپورٹنگ کرنے کے بعد وہ خود ہی لاپتہ ہوچکے تھے۔

جب کسی ایسے ہستی کو کو آپ سے چھین لیا جاتا ہے جس سے آپ محبت کرتے ہیں تو آپ کو کچھ دنوں تک اس پر حیرت ہوتی ہے۔ بس اس بارے میں اتنا ہی سوچ  سکتے ہیں۔ میں سمجھتی تھی کہ پاپا تین دن میں گھر واپس آ جائیں گے۔ دن ہفتوں میں بدلے اور ہفتے مہینوں میں تبدیل ہو گئے۔ ایسے بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح جنہیں خاندان سے الگ کردیا گیا تھا۔

آپ دن گننا کبھی نہیں چھوڑتے۔ جب آپ ہر صبح جاگتے ہیں تو آپ کو امید ہوتی ہے یہی وہ دن ہے کہ جب بالآخر آپ دن گننا بند کر دیں گے۔ میں پاپا کی تصویریں دیکھتی ہوں اور مجھے صرف خواب میں نظر آتا ہے کہ وہ پھر سے ہمارے ساتھ رہنے کے لیے چل کر کمرے میں داخل ہو رہے ہیں۔ اُسی طرح جیسا پاکستان میں ہزاروں دوسرے خاندانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔

بہت غصہ ہے جس پر قابو پانا ہے۔ یہ غصہ پولیس کی عدم دلچسپی سے لےکر عدالتوں کے چکر کاٹنے تک ہے۔ میرے والد کسی مقدمے کی فائل نہیں ہیں۔ وہ ایک انسان ہیں جنہیں دھول کی کسی ناروا لکیر کی طرح مٹایا نہیں جا سکتا۔ وہ ان لوگوں کے ساتھ ایک فرد ہیں جنہیں وہ تلاش کر رہے ہیں۔ ہم جوابات اور وہ قانونی تحفظ کے حق دار ہیں۔

مایوسی کا شکار ہو جانا بھی آسان ہے لیکن تب میں سوچتی ہوں کہ ایسی صورت حال میں وہ کسی دوسرے شخص کے لیے کیا کرتے۔ وہ بہادری کا مظاہرہ کرتے اور یہ وہ طاقت ہے جسے کبھی کوئی لاپتہ ہوتے برداشت نہیں کر سکتا۔'

(مندرجات ایمنیسٹی انٹرنیشنل کو دیے گئے بیان پر مبنی ہیں )

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر