کرونا مریض کی لاش زبردستی لے جانے والے لواحقین کا وارڈ پر دھاوا

اہل خانہ نے اپنے مریضوں کے بیڈز زبردستی ہسپتال سے باہر لے جانے کے لیے جناح ہسپتال کی بلڈنگ کا دروازہ توڑ دیا۔

گزشتہ شب کراچی کے علاقے صدر میں واقع جناح ہسپتال میں مشتعل افراد نے شدید توڑ پھوڑ کرکے لاکھوں روپے کا نقصان کردیا۔

کرونا سے ہلاک ہونے والے مریض کی لاش زبردستی ساتھ لے جانے کی کوشش کرنے والے اہل خانہ نے ڈاکٹرز کے روکنے پر جناح ہسپتال کے کرونا وارڈ میں شدید ہنگامہ آرائی کی اور گارڈ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ ہنگامے کے ڈر سے کچھ ڈاکٹروں نے باتھ رومز میں چھپ کر جان بچائی۔

پینسٹھ سالہ عبدالغفور کے اہل خانہ نے ڈاؤ ہسپتال کے کرونا وارڈ میں بیڈ کی عدم موجودگی کے باعث جناح ہسپتال میں اپنے مریض کو داخل کروایا۔ جناح ہسپتال کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیمی جمالی کے مطابق عبدالغفور نامی مریض میں کرونا وائرس کی تمام علامات ظاہر ہورہی تھیں اس لیے فوری طور پر ان کا کرونا کا ٹیسٹ کیا گیا مگر وینٹیلیٹر پر ہونے کے باوجود بھی مریض کی حالت اس قدر خراب تھی کہ ٹیسٹ کا نتیجہ آنے سے پہلے ہی وہ انتقال کرگئے۔

اس ہی دوران جناح ہسپتال میں کرونا کے ایک اور مریض کا بھی انتقال ہو گیا۔ عبدالغفور کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ انہوں نے بھی اپنے مریض کی لاش لے جانے کی ضد کی جس پر ڈاکٹرز کی جانب سے انہیں روکا گیا تو وہ مشتعل ہو گئے۔

اہل خانہ نے اپنے مریضوں کے بیڈز زبردستی ہسپتال سے باہر لے جانے کے لیے جناح ہسپتال کی بلڈنگ کا دروازہ توڑ دیا۔

اس بلڈنگ کے فرسٹ فلور پر کرونا کے مشتبہ مریضوں کا وارڈ ہے جبکہ گراؤنڈ فلور پر کرونا کے پازیٹو مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق گزشتہ رات آٹھ بجے کے قریب شروع ہونے والی اس ہنگامہ آرائی سے وینٹیلیٹرز پر موجود کئی مریضوں کی طبعیت مزید خراب ہوگئی۔

جناح ہسپتال کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیمی جمالی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دونوں مریضوں کی علامات سے یہ بات ظاہر تھی کہ وہ کرونا وائرس کے مریض ہیں اس لیے ہم نے ان کا فوری طور پر ٹیسٹ کیا۔ دنیا بھر میں کرونا کے مریضوں کی تدفین کے لئے ایک خاص ایس او پی فالو کیا جاتا ہے۔ اس ہی طریقہ کار کے تحت کرونا کے مریضوں کی لاش ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر کی نگرانی میں ایدھی سینٹر کو دی جاتی ہے جہاں ان لاشوں کا غسل ہوتا ہے۔ اس عمل کے بعد اہلِ خانہ کے سامنے ان کے مریض کی تدفین کی جاتی ہے۔ مگر جناح ہسپتال میں ہنگامہ آرائی کرنے والے لواہقین ان لاشوں کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔ ڈاکٹرز کے روکنے پر تقریباً دس سے پندرہ افراد نے ہمارے کرونا وارڈ پر حملہ کردیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں اس واقعے کی ٹینشن سے پوری رات نہیں سو سکی۔ اس واقعے کے بعد میرا بہت دل دکھا ہے۔ اگر کرونا وارڈ کے اطراف سکیورٹی موجود ہوتی تو معاملہ اتنا  نہیں بڑھتا۔ ہم نے متعدد بار پولیس سے گزارش کی ہے کہ جناح ہسپتال کے کرونا وارڈ کے باہر ہمیں سکیورٹی فراہم کی جائے لیکن شام چار بجے کے بعد سکیورٹی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔‘

گزشتہ رات وقوعہ پر موجود چند ڈاکٹرز نے ہمیں بتایا کہ ہنگامہ آرائی کے بعد عبدالغفور کے خاندان والے انہیں بیڈ سمیت ہسپتال سے باہر لے جانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ گارڈ نے گیٹ پر جب انہیں روکنے کی کوشش کی تو کئی افراد نے مل کر گارڈ کو تشدد کا نشانہ بنایا، یہاں تک کہ اس کے کپڑے بھی پھاڑ دیئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رات ساڑھے آٹھ بجے کے قریب پولیس اور رینجرز اہلکاروں نے جناح ہسپتال کو گھیرے میں لے لیا جس کے بعد مشتعل افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ کرونا سے ہلاک ہونے والے مریض عبدالغفور کی لاش بھی اہل خانہ سے واپس لی گئی۔ جناح ہسپتال کے آئی سی یو وارڈ کے انچارج نے خود کرونا مریض کی باڈی کو واپس ہسپتال میں داخل کیا۔

وقوعہ پر موجود جناح ہسپتال کی ریزیڈینٹ ڈاکٹر زرین ستار نے ہمیں بتایا کہ کل ان کی ایوننگ شفٹ تھی اور رات آٹھ بجے ان کی شفٹ شروع ہونا تھی۔ جس وقت وہ ہسپتال میں داخل ہوئیں بالکل اسی وقت ہنگامہ آرائی شروع ہوئی۔

ڈاکٹر زرین کا کہنا تھا کہ ’ہمیں کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس وقت کیا ہورہا تھا۔ کئی ڈاکٹرز ڈر کے مارے کرونا وارڈ کے باتھ رومز میں چھپ گئے تھے۔ پہلے انہوں نے وارڈ نمبر چھبیس کے اندر توڑ پھوڑ کی اور چیزیں اٹھا کے پھینکنا شروع کیں۔ پھر وارڈ سے باہر آکر انہوں نے کاؤنٹر پر چیزیں پھینکیں اور کاؤنٹر کا شیشہ پورا توڑ دیا۔‘

ڈاکٹر زرین اس واقعے کے بعد سے بہت پریشان اور مایوس ہیں۔ انہوں نے اپنے ساتھی ڈاکٹرز کا بھی موقف ہمیں بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس ہنگامے کے کافی دیر بعد تک بھی ہم انتہائی خوفزدہ اور ٹینشن میں رہے۔ ہمیں افسوس اس بات کا ہے کہ کیا یہی وہ احسان فراموش لوگ ہیں جن کے لیے ہم اپنی جان پر کھیل کر روز ڈیوٹی کرتے ہیں؟ اگر چالیس کرونا کے مریضوں کے درمیان کوئی ڈاکٹر ڈیوٹی دیتا ہے تو سوچیں اسے اور اس کے گھر والوں کو کتنا خطرہ ہے۔‘

کراچی کے  ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کے اہل خانہ کی جانب سے مشتعل ہونے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ بارہ مئی کے روز رات آٹھ بجے کے قریب سول ہسپتال کراچی کے سکیورٹی گارڈ نے دس افراد کے ہمراہ لیڈی داکٹر کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ گارڈ کا رشتے دار جسے بجلی کا کرنٹ لگنے کے باعث سر پر چوٹ آئی تھی سول ہسپتال کی ایمرجنسی میں لایا گیا تھا۔ سر پر گہری چوٹ کی وجہ سے ڈاکٹرز نے مشورہ دیا کہ مریض کو ٹراما سینٹر میں نیورو سرجن کو دکھایا جائے لیکن کیوں کہ وہ گارڈ کے رشتے دار تھے اس لیے سول ہسپتال میں ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی اور ان کے مریض کو دیکھنے والی لیڈی ڈاکٹر کو سکیورٹی گارڈ کے اہل خانہ نے تشدد کا نشانہ بنایا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان