پاکستانی 'جاسوس کبوتر' رہا: 'رہائی کے وقت ہشاش بشاش، صحت مند تھا'

ضلع کٹھوعہ کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ڈاکٹر شیلندر کمار مشرا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'تحقیقات کے دوران ہمیں کبوتر میں کچھ بھی مشکوک نظر نہیں آیا۔ جب ہمیں کچھ مشکوک نظر نہیں آیا تو ہم نے کبوتر کو رہا کردیا'۔

(ظہور حسین)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کٹھوعہ میں پولیس نے مبینہ پاکستانی 'جاسوس کبوتر' کو رہا کردیا ہے۔ تحقیقاتی ٹیم کو مذکورہ کبوتر میں کچھ بھی مشکوک نظر نہیں آیا جس کے بعد اسے فضا میں اڑنے کے لیے آزاد کردیا گیا۔

واضح رہے کہ 25 مئی کو ضلع کٹھوعہ میں کنٹرول لائن کے نزدیک منیاری نامی گاؤں کے لوگوں نے ایک کبوتر کو پکڑ لیا تھا جس کے پروں پر گلابی رنگ رنگا ہوا تھا اور اس کے پاؤں میں ایک رنگ باندھی ہوئی تھی جس پر کچھ ہندسے لکھے ہوئے تھے۔

جوں ہی پولیس نے کبوتر کو تحقیقات کے لیے اپنے قبضے میں لیا تو فوراً بھارتی میڈیا کے ایک بڑے حصے نے یہ خبر چلانا شروع کردی تھی کہ پاکستان نے جس کتوبر کو جاسوسی کے لیے بھیجا تھا، وہ پکڑا گیا ہے۔

تاہم کبوتر کو چار دنوں تک ایک پنجرے میں بند رکھنے کے بعد یہ کہتے ہوئے رہا کردیا گیا کہ 'جب کبوتر میں کچھ بھی مشکوک نظر نہیں آیا تو اسے رہا کردیا۔'

ضلع کٹھوعہ کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ڈاکٹر شیلندر کمار مشرا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'سرحد کے نزدیک رہنے والے لوگوں نے ایک کبوتر کو پکڑ لیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کبوتر کی ایک ٹانگ میں بندھی ہوئی رنگ پر کچھ ہندسے درج ہیں۔ چونکہ یہ گاؤں بین الاقوامی سرحد کے بالکل نزدیک ہے اس کے پیش نظر وہاں کے لوگوں نے بطور احتیاط یہ کبوتر پولیس کے حوالے کردیا'۔

انہوں نے کہا: 'تحقیقات کے دوران ہمیں کبوتر میں کچھ بھی مشکوک نظر نہیں آیا۔ جب ہمیں کچھ مشکوک نظر نہیں آیا تو ہم نے کبوتر کو رہا کردیا'۔

یہ پوچھے جانے پر کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے حبیب اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ کبوتر ان کا ہے اور کیا تحقیقات کے دوران اس کی تصدیق ہوئی ہے، تو ڈاکٹر شیلندر مشرا کا جواب تھا: ہم نے اس لائن پر تحقیقات کرنا ضروری نہیں سمجھا۔'

کبوتر کو کسی کے حوالے کرنے کی بجائے فضا میں رہا کرنے کے متعلق پوچھے جانے پر ایس ایس پی نے کہا: 'پرندہ ہے اور پرندے کو ایسے بند بھی نہیں رکھ سکتے ہیں۔ اس کو آزاد رہنے کا حق ہے۔ جیسے ہی ہم مطمئن ہوگئے کہ اس میں کچھ بھی مشکوک نہیں ہے تو ہم نے اسے چھوڑ دیا۔'

پاکستان میں صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال کے سرحدی گاؤں کے رہنے والے حبیب اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ عید کے روز انہوں نے اس کبوتر جس کا نام انہوں نے گولڈن مادی رکھا ہے، کے ساتھ دیگر کبوتر بھی اڑائے تھے جن میں سے گولڈن مادی واپس نہیں آئی۔

ان کا کہنا تھا: 'اس کبوتر کے پنجے میں بھی جو رنگ ہے اس پر میرا فون نمبر لکھا ہے، بھارتی فوج اس پر کال کرکے تصدیق کر سکتی ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پنجرے میں رکھے جانے کے دوران مذکورہ کتوبر کے دانہ پانی کا خاص خیال رکھا گیا جس پر کچھ پولیس اہلکاروں کو مامور کیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ کبوتر سہما ہوا نظر آرہا تھا اس کو دیکھتے ہوئے اس کا ایک ویٹرنری ڈاکٹر سے طبی معائنہ بھی کرایا گیا۔ 'رہائی کے وقت وہ صحت مند اور ہشاش بشاش تھا۔'

کٹھوعہ میں بین الاقوامی سرحد پر 'پاکستانی جاسوس' ہونے کی پاداش میں کبوتر کو اس وقت پکڑا گیا جب لداخ میں سرحد پر بھارت اور چین کی افواج کے درمیان ٹکراؤ ایسی کشیدہ صورتحال بنی ہوئی ہے جس کے ختم ہونے کے آثار فی الحال نظر نہیں آرہے ہیں۔

بھارتی میڈیا نے لداخ کی سنگین سرحدی صورتحال سے صرف نظر کرکے اپنی تمام تر توجہ بے چارے کبوتر کی طرف مرکوز کی تھی اور اس کے جاسوس ہونے پر طرح طرح کی تاویلات و تجزیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا تھا۔

ادھر لوگوں بالخصوص اہلیان کشمیر میں کبوتر کی گرفتاری ایک طویل طنزیہ بحث و مباحثے کا موضوع بن گئی تھی۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کی طرف سے اس کبوتر کی گرفتاری کے حوالے سے مختلف النوع تحریروں کا سیلاب امڈ آیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا